صدر اور وزیراعظم:شکوہ اور جواب شکوہ 

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے موجودہ ملکی صورتحال اور آئینی و قانونی خلاف ورزی اور انسانی حقوق کی پامال پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کو ایک خط لکھا تھا جس کا وزیراعظم نے دو روز پہلے جواب دے دیا۔ صدر کا شکوہ 4 صفحات پر مشتمل تھا، وزیر اعظم کا جواب شکوہ 5 صفحات پر، یعنی کہ جوابی خط بلحاظ حجم اور بلحاظ متن صدر کے خط پر حاوی نظر آیا۔صدر نے اپنے تئیں آئینہ دکھایا تو وزیراعظم نے بھی پی ٹی آئی کے دور حکومت کا کٹھا چٹھا کھول دیا۔ ایسا لگا کہ دونوں آئینی عہدیدار ایک دوسرے کے خلاف دل کا غبار نکالنے کو تیار بیٹھے تھے۔ بقول غالب:
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
صدر نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ سیاسی کارکنوں کی گرفتاری انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور حکومت ایسے ہتھکنڈوں کے ذریعے زبان بندی کر کے آئین کے آرٹیکل 19 کی صریح خلاف ورزی کر رہی ہے۔ صدر نے اپنے خط میں الیکشن کے التواءپر بھی سارا ملبہ حکومت پر ڈالا اور کہا تھا کہ حکومت نے ریاستی اداروں کو الیکشن کے انعقاد میں الیکشن کمیشن سے تعاون نہ کرنے کا کہا جو کہ آئین کے آرٹیکل 220 کی کھلم کھلاخلاف ورزی ہے۔ صدر نے اپنے خط میں وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا کہ توہین عدالت سمیت مزید پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے وزیر اعظم، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ حکام کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقررہ وقت میں عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں۔ آرٹیکل 224 (2) کے تحت 90 دن کے اندر انتخابات کرانا ضروری ہیں، سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کو صدر کو 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کیلئے تاریخیں تجویز کرنے کا حکم دیا۔
صدر نے تحفظات کے اظہار میں لکھا، لگتا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وفاقی اور نگران حکومتوں نے متعلقہ محکموں کے سربراہان کو عام انتخابات کے انعقاد کیلئے ضروری تعاون فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کرنے کا کہا۔ صدر مملکت نے لکھا کہ الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کو پنجاب میں عام انتخابات کے انعقاد کے اپنے اعلان پر عمل نہیں کیا ، سپریم کورٹ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے 8 اکتوبر کی تاریخ کا اعلان کیا، تشویشناک بات ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے آرٹیکل 46 اور رولز آف بزنس کے تحت صدر کے ساتھ کوئی بامعنی مشاورت نہیں کی گئی۔ صدر مملکت نے خط میں وزیراعظم کی توجہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب بھی مبذول کرائی تھی۔ خط میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مظالم ، شہریوں کے خلاف طاقت کے غیر متناسب استعمال کی سنگینی کا بھی ذکر کیا گیا۔اب جواب شکوہ سنیے کہ کس طرح وزیراعظم نے ان تمام خدشات اور تحفظات کا کرارا جواب دیا۔
 وزیراعظم صدر سے مخاطب ہیں۔ لکھتے ہیں، کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ کا خط تحریک انصاف کا پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے کیونکہ یہ یکطرفہ، حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے جن کا آپ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں۔آپ کا خط صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں اور یہ پہلی دفعہ نہیں آپ مسلسل یہی کررہے ہیں۔ 3 اپریل 2022ءکو آپ نے قومی اسمبلی کی تحلیل کرکے سابق وزیراعظم کی غیرآئینی ہدایت پر عمل کیا۔ قومی اسمبلی کی تحلیل کے آپ کے حکم کو سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو غیرآئینی قرار دیا۔ وزیراعظم نے یاد کرایا کہ جب ان کو آئینی طریقے سے عدم اعتماد کامیاب ہونے پر وزارت عظمیٰ ملی تو آپ نے مجھ سے حلف لینے سے انکار کیا اور پیٹ کی گرانی کا بہانہ بنایا۔ میں نے آپ کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی پوری کوشش کی لیکن اپنے خط میں آپ نے جو لب ولہجہ استعمال کیا اس سے آپ کو جواب دینے پر مجبور ہوا ہوں۔وزیراعظم نے مزید لکھا آپکے خط کا جواب اسی لیے دے رہا ہوں تاکہ آپ کے یکطرفہ رویے کو ریکارڈ پر منکشف کردوں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے آپ نے عام، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخاب کی تاریخ دیدی، آپ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے یکم مارچ 2023ءکے حکم سے مسترد کردیا۔ آپ نے دو صوبوں میں بدنیتی پرمبنی اسمبلیوں کی تحلیل پر کسی قسم کی تشویش تک ظاہر نہ کی اور یہ سب آپ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی انا اورتکبر کی تسکین کیلئے کیا۔ صوبائی اسمبلیاں کسی آئینی وقانونی مقصد کیلئے نہیں، صرف وفاقی حکومت کو بلیک میل کرنے کیلئے تحلیل کی گئیں۔
 آپ نے یہ بھی نہ سوچا کہ دوصوبائی اسمبلیوں کے پہلے الیکشن کرانے سے ملک نئے آئینی بحران میں گرفتار ہوجائےگا۔ آپ کا یہ طرزِ عمل صدر کے آئینی کردار کے مطابق نہیں۔ اب ان دونوں ملفوف کو سامنے رکھیں تو دونوں ہی درست، دونوں ہی بر محل، شکوہ بھی ٹھیک جواب شکوہ بھی بجا۔ سیاست میں اقتدار کی دوڑ میں آپ کو ہر برے کام کا جواز اور ہر گناہ کا عذر بآسانی دستیاب ہوتا ہے۔ گزارا کیجیے اور گورا کیجیے۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن