معاشی ترقی ایک ایسا طویل اور مسلسل عمل ہے جس کے دوران کوئی بھی ملک اپنے دستیاب مادی اور غیر مادی وسائل کو بھر پور طریقے سے استعمال کر تے ہوئے حقیقی قومی آمدنی کو آبادی میں اضافے کی رفتار سے زیادہ رکھنے پر عمل پیرا رہتا ہے۔ جب لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہو تا ہے تو بچت کی جدید زری مارکیٹ کے ذریعے تشکیل سرمایہ کاری کے عمل کو فروغ دیا جاتا ہے جس سے ایک طرف نئی دولت کی تخلیق ہوتی ہے اور دوسری طرف اگر ٹیکسوں کا نظام پروگریسو اور منصفانہ ہو تو لوگوں کی سماجی فلاح و بہبود میں بھی بہتری آتی ہے مگر جب بھی کوئی پسماندہ ملک ترقی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مغربی سامراجی ممالک اور ادارے اپنے معاشی مفادات کی خاطر اس ملک کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں، جیسا کہ چین کے ساتھ۔
امریکا ان ممالک کو بھی فکس کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے ساتھ اقتصادی تعلقات قائم کرتے ہیں۔ جب بھی پاکستان، ایران، چین اور روس سے معاشی اور کاروباری تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے تو امریکی ایما پر جہاں بین الاقوامی مالیاتی ادارے اس پر عرصہ¿ حیات تنگ کر دیتے ہیں، وہیں پر خلیجی ممالک بھی سرد مہری دکھانا شروع کر دیتے ہیں مگر معاشی طور پر دست نگر ملک کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا، سوائے منت سماجت کے۔
پاکستان نے اپنے دوسرے پانچ سالہ منصوبے 1960ءتا 1965ءکے دوران 5.5 فیصد شرح نمو سے ترقی کی جو اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک سے زیادہ تھی مگر پھرہم اپنوں اور غیروں کی سازشوں سے ہندوستان سے جنگ میں الجھ گئے کیونکہ دوسرے پانچ سالہ منصوبے کے بعد سامراجی ممالک کو گوارا نہ تھا کہ پاکستان معاشی قوت بن کر ایشیا میں ابھرے اور یہ ممالک اپنی مصنوعات کی فروخت کی منڈی کھو دیں بلکہ پاکستان کی معاشی ترقی سے ان ممالک کو عرب ممالک کی منڈیوں کے متاثر ہونے کے خدشات تھے۔ اس کے بعد ایوب خان کے خلاف احتجاجی تحریک چلی۔ ایوب خان نے 25 مارچ 1969ءکو اقتدار عوامی نمائندوں کی بجائے یحییٰ خان کے سپرد کر دیا۔ یحییٰ خان نے 1970ءمیں عام انتخابات کرائے مگر مجیب الرحمن کو اکثریت کے باوجود انتقال اقتدار نہیں کیا جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہو گیا۔ اگر پاکستان کا 20 سالہ تناظر ی منصوبہ 1965ءسے 1985ءتک چلتا رہتا اور ہندوستان سے جنگیں نہ ہوتیں تو مشرق پاکستان بھی الگ نہ ہوتا۔
1972ءمیں پیپلز پارٹی کی حکومت کی معاشی پالیسیاں معاشی ترقی کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئیں۔ چھوٹی بڑی صنعتوں کو نیشنلائز کر لیا گیا۔ زر کی قدر میں 131 فیصد کمی کی گئی۔ پھر امریکی ایما پر 1977ءمیں احتجاجی تحریک چلی۔ ضیاءالحق اقتدار میں آگئے۔ بھٹو کو ناحق تختہ دار پر چڑھا دیا گیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ضیاءالحق 11 سال امریکی سامراج کی جنگ سوویت یونین کے خلاف لڑتے رہے اور ملک کا معاشی، سماجی اور مذہبی فیبرک مکمل تباہ کرگئے ۔ 1988ءکو ان کے فضائی حادثے میں ہلاک ہونے کے بعد دس سال نواز شریف اور بے نظیر کے درمیان اسٹیبلشمنٹ نے خوب سیاسی محاذ آرائی برقرار رکھی۔ دو دو دفعہ ان دونوں کی حکومتیں ختم ہوئیں۔ دونوں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ایک دوسرے کی حکومتوں کو گراتے رہے کہ پھر میاں صاحب نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر مشرف سے لڑائی شروع کی جس کے نتیجے میں ملک کے معاشی معاملات خراب ہوئے، خود بھی میاں نواز شریف جیل پہنچ گئے۔ مشرف کے دور میں نائن الیون نے پاکستان کو ایک بار پھر امریکا کی پراکسی وار میں فرنٹ لائن سٹیٹ بنا دیا مگر معاشی طور ملک مستحکم رہا۔ ڈالر 60 روپے پانچ سال رہا۔ بیرونی قرضے 6000 ارب تک رہے اور پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر آگیا مگر پھر مشرف جب اقتدار سے نکلا تو اقتدار 2008ءمیں زرداری کے ہاتھ میں آگیا تو مشرف نے کہا کہ اب پاکستان کا خدا ہی حافظ !اس کے بعد نواز شریف، عمران خان اور شہباز شریف نے ملک کو قبر کے کنارے پر پہنچا دیا مگر اس موقع پر سبھی سیاستدان اور فیصلہ ساز قوتیں اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر ایک دوسرے کو تباہ برباد کرنے پرتلی ہوئی ہیں۔ اب کیا جانبداری اور کیا غیر جانبداری، کوئی تو صاحب فہم شخصیت یا ادارہ اس ملک سے سیاسی انتشار کو ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ٹروتھ کمیشن ری کونلسی ایشن قائم کرکے اور ایک دوسرے کو معاف کر کے پاکستان کی سالمیت اور بقا کی خاطر انتخابات اور انتقال اقتدار کی تاریخ طے کریں اور سیاسی جمہوری عمل کو آئین کے تحت چلنے دیں نہ کہ زرداری اور نواز شریف، کی سیاسی تمناو¿ں کی خاطر۔۔۔ وگرنہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو غیر جمہوری قوتوں کی داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں!