سیاسی کشمکش صرف جماعتوں تک محدود نہیں رہی بلکہ صدرِ مملکت کا منصب بھی اب اس کی زد میں دکھائی دیتا ہے۔ عام حالات میں صدرِ مملکت کو کسی سیاسی جماعت کا نمائندہ بننے کی بجائے وفاق اور اس کی اکائیوں کے اتحاد کا ضامن ہونا چاہیے اور اس حیثیت میں وہ اپنے سیاسی نظریات کو ایک طرف رکھ کر مختلف جماعتوں اور گروہوں کے مابین ثالث کا کردار ادا کرتے ہیں لیکن صدر عارف علوی متعدد ایسے اقدامات کرچکے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے نمائندے کے طور پر کام کررہے ہیں۔ 24 مارچ کو انھوں نے وزیراعظم کے نام جو خط لکھا اس سے بھی یہی تا¿ثر ملا کہ عارف علوی خود کو صدرِ مملکت نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا ترجمان سمجھ کر بات کررہے ہیں۔ یہ صورتحال افسوس ناک ہے کیونکہ اس کی وجہ سے سربراہِ ریاست کے منصب کی توقیر گھٹ رہی ہے جو کسی بھی طور مناسب عمل نہیں ہے۔
اب وزیراعظم محمد شہباز شریف نے عارف علوی کو پانچ صفحات اور سات نکات پر مشتمل جوابی خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدر کی جانب سے لکھا گیا خط ان کے منصب کا آئینہ دار نہیں بلکہ تحریک انصاف کی ایک پریس ریلیز لگتا ہے۔ صدر آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 1 کے تحت کابینہ یا وزیراعظم کی ایڈوائس کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے، وفاقی حکومت کے انتظامی اختیار کو استعمال کرنے میں وزیراعظم صدرِ مملکت کی مشاورت کا پابند نہیں۔شہباز شریف نے یہ بھی لکھا کہ میں اور وفاقی حکومت آئین کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہیں ،آئین کی مکمل پاسداری، پاسبانی اور دفاع کے عہد پر کاربند ہیں۔ حکومت پرعزم ہے کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے اور ریاست پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی اجازت نہ دی جائے، آئینی طورپر منتخب حکومت کوکمزور کرنے کی ہر کوشش ناکام بنائیں گے۔
صدرِ مملکت کو لکھے گئے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ آپ کا خط یکطرفہ اور حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے جن کا آپ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں۔ آپ مسلسل یہی کررہے ہیں۔ 3 اپریل 2022ءکو آپ نے قومی اسمبلی کی تحلیل کرکے سابق وزیراعظم کی غیرآئینی ہدایت پر عمل کیا،قومی اسمبلی کی تحلیل کے آپ کے حکم کو سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو غیرآئینی قرار دیا۔ آرٹیکل 91 شق5کے تحت بطور وزیراعظم میرے حلف کے معاملے میں بھی آپ آئینی فرض نبھانے میں ناکام ہوئے۔ شہباز شریف نے مزید لکھا کہ کئی مواقع پر آپ منتخب آئینی حکومت کے خلاف فعال انداز میں کام کرتے آرہے ہیں،میں نے آپ کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی پوری کوشش کی۔ اپنے خط میں آپ نے جو لب ولہجہ استعمال کیا، اس سے آپ کو جواب دینے پر مجبور ہوا ہوں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا آپ کا حوالہ ایک جماعت کے سیاستدانوں اور کارکنوں کے حوالے سے ہے، آئین کے آرٹیکل 10 اے اور 4 کے تحت آئین اور قانون کا مطلوبہ تحفظ تمام افراد کو دیاگیا ہے۔
ایک طرف صدرِ مملکت اور وزیراعظم کے مابین خطوط کی شکل میں ایک دوسرے کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کے ایک انٹرویو نے سیاسی ماحول کو مزید گرم کردیا ہے۔ انھوں نے اپنے انٹرویو میں خبر دار کیا کہ عمران خان نے سیاست کو اس سٹیج پر لاکر کھڑا کردیا ہے جہاں اب یا تو وہ رہیں گے یا ہم رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان سیاست میں جمہوری روایات اور پرامن سیاسی ماحول پر یقین نہیں کرتے،سیاست کو دشمنی بنا دیا ہے۔ رانا ثناءاللہ نے یہ بھی کہا کہ عمران خان اب ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں جبکہ ہم ان کو اپنا سیاسی مخالف سمجھتے تھے لیکن بات یہاں تک آگئی ہے کہ اب وہ بھی ہمارا دشمن ہے۔ اگر سمجھیں گے ہمارے وجود کی نفی ہورہی ہے تو ہم ہر اس حد تک جائیں گے جس میں اصولی، غیراصولی، جمہوری اور غیرجمہوری کی بات ختم ہوجائے گی۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے رانا ثناءاللہ کے اس انٹرویو سے متعلق ایک درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کردی ہے جس میں وفاق، آئی جی اسلام آباد اور ایس ایس پی آپریشنز کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ رانا ثناءاللہ نے ایک انٹرویو میں ڈائریکٹ دھمکیاں دی ہیں، فریقین کو میری گرفتاری کر کے اپنے منصوبے پر عمل درآمد سے روکا جائے۔
ہماری سیاسی قیادت اور ریاست کے اہم مناصب پر بیٹھے ہوئے افراد معاملات کو جس طرف لے کر جارہے ہیں اس سے کوئی سدھار ہرگز پیدا نہیں ہوگا بلکہ مزید بگاڑ ہی آئے گا۔ اس وقت ملک کے معاشی حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ سیاسی قیادت باہمی آویزش سے گریز کرتے ہوئے سر جوڑ کر بیٹھے اور ملک کو ان حالات سے نکالنے کے لیے مشاورت کرے۔ عوام سیاسی قیادت کے رویوں کو بھی دیکھ رہے ہیں اور اپنی پریشانیوں اور مصیبتوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال کسی ایک سیاسی جماعت یا شخصیت نہیں بلکہ پورے جمہوری نظام کو نقصان پہنچائے گی، لہٰذا سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ اس رسہ کشی کو چھوڑ کر اب افہام و تفہیم کی طرف آئے اور یہ دیکھے کہ کس طرح اس منجدھار سے ملک کو نکالا جاسکتا ہے۔
صدرِ مملکت کا منصب اور سیاسی کشمکش
Mar 28, 2023