مبینہ طور پر خوردنی تیل اور گھی کی قیمتوں میں 50روپے کلو تک اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے عام آدمی پر رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں مہنگائی کا اضافی بوجھ پڑا ہے۔ خوردنی تیل اور گھی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور پورٹ قاسم اتھارٹی کی غیر منصفانہ پالیسی کے باعث ہوا ہے۔ ہوا کچھ یوں ہے کہ کئی دہائیوں سے خوردنی تیل اور گھی کی کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم سے ملک بھر کی گھی ملوں کو سپلائی کرنے والے دس وہیلر آئل ٹینکرز جو پہلے 30ٹن وزن ملوں تک لے جاتے تھے ان پر رمضان المبارک سے چند دن پہلے وزن کی پابندی عائدکرکے فی دس وہیلر آئل ٹینکر 15ٹن وزن لوڈ کیا جارہا ہے جس کے باعث 20 روز سے ملک بھر کی گھی ملوں کو گھی اور خوردنی تیل کی سپلائی شدید متاثر ہے جس کے باعث گھی اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں حالیہ 50روپے کلو مبینہ اضافہ ہوا ہے۔ اگر نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور پورٹ قاسم اتھارٹی کی یہی غیر منصفانہ روش جاری رہی تو ملک بھر میں گھی و خوردنی تیل کی قلت کا اندیشہ ہے۔
پورٹ قاسم کے آئل ٹرمینلز کے علاوہ ملک بھر میں کہیں بھی دس وہیلر کو 15ٹن سے زیادہ وزن لے جانے کی پابندی نہیں ہے۔ کراچی پورٹ سے دس وہیلر آئل ٹینکرز کو 30ٹن وزن لوڈ کیا جارہا ہے۔ پورٹ قاسم اتھارٹی کے خلاف کراچی کی لوکل گھی ملوں کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے 30ٹن وزن لوڈ کرنے کا حکم دیا ہے جس کے باعث کراچی کی لوکل گھی ملوں کو جانے والے آئل ٹینکرز کو 30 ٹن وزن دیا جارہا ہے حالانکہ وہ آئل ٹینکرز بھی نیشنل ہائی وے استعمال کرکے کراچی شہر کی گھی ملوں تک پہنچتے ہیں۔
پورٹ قاسم اتھارٹی کو چاہئے کہ وہ تمام گھی کے دس وہیلر آئل ٹینکرز کو 30ٹن وزن لوڈ کرنے دے۔ جو آئل ٹینکر نیشنل ہائی وے استعمال کرکے گھی ملوں تک پہنچے گا تو اسے موٹروے پولیس کی جانب سے کوئی ممانعت نہیں ہے اور جو ٹینکر موٹروے استعمال کرے گا تو اس پر موٹروے پولیس اپنے قوانین کے مطابق جرمانے کرسکتی ہے۔ اس معاملے میں صرف پورٹ قاسم اتھارٹی کی جانب سے کم وزن دیا جانا غیر منصفانہ حکم ہے کیونکہ کراچی پورٹ سمیت ملک بھر میں کہیں بھی آئل ٹرمینلز پر اس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اب آئل ٹینکرز کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا ہے اور امید ہے کہ اس سلسلے میں مناسب احکامات صادر کئے جائیں گے۔
کراچی پورٹ پر وزن کی کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی ملک بھر میں کہیں اور اس طرح کے احکامات پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ صرف اور صرف پورٹ قاسم اتھارٹی کی جانب سے غیر منصفانہ فیصلے کے باعث تقریباً 10,000آئل ٹینکرز مالکان اور ان سے منسلک تقریباً 30,000خاندان شدید معاشی بحران کا شکار ہوچکے ہیں کیونکہ آئل ٹینکرز کو کرایہ فی ٹن وزن کے حساب سے ملتا ہے۔ اب نصف کرایہ مل رہا ہے جس سے ان کے ٹرپ اخراجات ہی پورے نہیں ہوپارہے۔ اگر پورٹ قاسم اتھارٹی اپنے غیر منصفانہ فیصلے پر عملدرآمد پر بضد رہی تو گھی ملوں کی جانب سے کرائے دوگنے کرنے پڑیں گے جس کا بوجھ براہ راست صارفین پر منتقل ہوگا اور گھی و خوردنی تیل کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ کرنا پڑے گا۔
آئل ٹینکرز مالکان میں سے زیادہ کا تعلق خیبر پختونخواہ‘ بلوچستان‘ پنجاب کے اضلاع میانوالی‘ اٹک‘ خوشاب‘ سرگودھا‘ لیہ‘ ڈیرہ غازی خان‘ مظفرگڑھ‘ رحیم یارخان‘ بہاولنگر وغیرہ سے ہے کیونکہ یہ علاقے پسماندہ ہیں اور یہاں روزگار کے اور کوئی مواقع موجود نہیں۔ سابقہ دور حکومت میں وزن کی ایسی کوئی پابندی نہیں تھی لیکن موجودہ حکومت کے آتے ہی اس طرح کے غیر منصفانہ احکامات کے باعث 30,000 خاندانوں کا معاشی مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔ اس طرح کے احکامات کے باعث ہی ان اضلاع میں حکمراں جماعت کی مقبولیت میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
کرائے دوگنے کرنا ضروری ہے لیکن انڈسٹری مالکان یہ بوجھ براہ راست عام آدمی پر منتقل کریں گے جس سے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوگا۔ گزشتہ روز بحری امور کے وفاقی وزیر قیصر احمد شیخ کے توسط سے پورٹ قاسم اتھارٹی کے حکام سے بھی اس غیر منصفانہ فیصلے کے متعلق بات ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں صدر‘ وزیراعظم اور وزیر مواصلات سے اپیل ہے کہ اس سنگین نوعیت کے معاملے پر مناسب احکامات صادر کریں تاکہ 30,000خاندانوں کا معاشی مستقبل بھی محفوظ ہوسکے اور مہنگائی میں بھی اضافہ نہ ہو۔ البتہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی‘ موٹروے پولیس‘ پورٹ قاسم اتھارٹی اور حکومت کے حکام‘ آئل ٹینکرز مالکان اور انڈسٹری مالکان مشترکہ طور پر اس معاملے کا مستقل مناسب حل نکالیں تاکہ وزن کے متعلق قوانین کا مناسب حد تک نفاذ بھی ہوسکے اور آئل ٹینکرز مالکان و عملے کا معاشی مستقبل بھی خطرات کا شکار نہ ہو اور اولین ترجیح یہی ہے کہ فیصلوں اور پالیسیوں کے باعث مہنگائی میں اضافہ بھی نہ ہو۔وزیراعظم میاں شہباز شریف اس معاملے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ریلیف دیں البتہ اس معاملے کے مستقل مناسب حل کے لئے چند ماہ میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے مناسب فیصلہ بھی لازمی ہونا چاہئے۔
وزیرعظم صاحب کی توجہ کے لیئے
Mar 28, 2024