تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے واقعات 

ڈیڑھ ہفتہ پہلے گورنمنٹ کالج یا جی سی یونیورسٹی لاہور کے شعبۂ انگریزی میں ایک تکلیف دہ اور افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک خاتون نے، جسے بعد میں یونیورسٹی کے سٹاف نے زہیلہ جاوید کے نام سے شناخت کیا،  شعبے کے دفتر میں بیٹھے ایک اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محبوب احمد پر حملہ   کردیا۔ اس دوران خاتون نے دفتر میں موجود مختلف چیزیں اٹھا کر ڈاکٹر محبوب کو ماریں اور انھیں مسلسل گالیاں بھی دیتی رہی۔ خاتون کے ہی کسی ساتھی نے اس سارے واقعے کی ویڈیو بنائی اور اسے مین سٹریم اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا دیا۔ سوشل میڈیا پر تو خیر کوئی روک ٹوک نہیں ہے لیکن اس واقعے سے متعلق خبریں نشر اور شائع کرنے والے ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات کے بغیر  تصدیق کیے ڈاکٹر محبوب کو جنسی ہراسانی کا مجرم قرار دینے کا معاملہ نرم ترین الفاظ میں انتہائی قابلِ مذمت ہے۔
پاکستان میں عورتوں کو دفاتر اور دیگر کاروباری جگہوں پر ہراساں کرنے کے مسئلے کا تدارک کرنے کے لیے انسدادِ ہراسانی کا قانون پاکستان پیپلز پارٹی نے مارچ 2010ء میں منظور کروایا تھا۔ اس قانون کے تحت پارلیمان نے یہ طے کردیا کہ ہراساں صرف عورتوں کو ہی کیا جاسکتا ہے، مرد نامی جنس سے تعلق رکھنے والا انسان خواہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہو اور معاشرے کے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو اسے ہراساں نہیں کیا جاسکتا۔ قانون کی شقوں میں ہراسانی کا دائرہ اس حد تک وسیع کردیا گیا کہ کوئی خاتون کسی شخص کے خلاف محض یہ کہہ کر مقدمہ درج کروا سکتی ہے کہ وہ شخص اسے گھور رہا تھا ۔
دنیا بھر میں موجود قوانین کے مطابق کسی شخص کو اس وقت تک مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک کہ گواہوں اور ثبوتوں کی مدد سے اس پر لگایا جانے والا الزام ثابت نہ ہوجائے مگر انسدادِ ہراسانی کا قانون اس حوالے سے بھی اپنی نوعیت کا واحد قانون ہے کہ اس کے تحت جس شخص پر الزام لگا دیا جائے وہ بغیر کسی گواہی یا ثبوت کے فوری طور پر مجرم قرار پاجاتا ہے اور اب یہ الزام لگانے والے کا نہیں بلکہ اس شخص کا مسئلہ ہے کہ وہ خود کو بے گناہ ثابت کرے ورنہ سزا کا سامنا کرے اور بدنامی کا داغ ماتھے پر لیے اپنی عزت کی دھجیاں سمیٹتے ہوئے زندگی کے باقی ماندہ سال گزارے۔
یہ بات تو وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ گزشتہ چودہ برس کے دوران اس قانون کے باعث عورتوں کے خلاف ہراسانی کا انسداد یا تدارک کس حد تک ممکن ہوپایا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مذکورہ قانون تعلیمی اداروں، دفاتر اور دیگر جگہوں پر مردوں کو ہراساں کرنے کا وسیلہ ضرور بنا ہے۔ ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ کوئی خاتون شاگرد اپنے مرد استاد کے پاس تحقیقی خاکہ یعنی ریسرچ سائناپسس لے کرگئی اور استاد نے اس تحقیقی خاکے کی غلطیاں واضح کرتے ہوئے موصوفہ سے تحقیقی خاکہ دوبارہ ترتیب دینے کو کہا تو وہ لائبریری کا رخ کرنے کی بجائے سیدھی سربراہِ ادارہ کے دفتر پہنچی اور پہلے رو رو کر اپنی من گھڑت کتھا بیان کی کہ کس طرح استاد موصوف نے اسے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی اور پھر ایک عدد درخواست داغ کر استادِ محترم کے عشروں کو محیط کیرئیر اور نیک نامی کا قصہ تمام کردیا۔
ہمارے ہاں ایک خاص طبقہ اس حوالے سے بہت شور مچاتا ہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کا قانون غلط استعمال ہوتا ہے، لہٰذا اسے ختم کیا جائے۔ گزشتہ چند برس سے جو قانون توہینِ مذہب کے قانون سے بھی زیادہ غلط استعمال ہورہا ہے وہ جنسی ہراسانی کا قانون ہے لیکن یہ طبقہ اول الذکر کی طرح غلط استعمال کو بنیاد بنا کر ثانی الذکر کو ختم کرنے کی بات کبھی نہیں کرے گا۔ ایسے کم از کم دو واقعات کا میں گواہ ہوں جن میں جنسی ہراسانی کے قانون کو غلط استعمال کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے انتہائی مذموم حرکتیں کیں۔ ان میں سے پہلا واقعہ لاہور کی ایک بڑی یونیورسٹی میں پیش آیا جہاں ایک خاتون نے وائس چانسلر کو درخواست دی کہ میرے صدرِ شعبہ نے ڈھائی سال پہلے میرا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تھی (خاتون کی درخواست میں یہی الزام تھا، میں نے اس میں کوئی مبالغہ نہیں کیا)، لہٰذا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ انکوائری کمیٹی نے صدرِ شعبہ کے بیان یا موقف کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ بغیر کسی دلیل، ثبوت یا گواہ کے ان صاحب کے خلاف کارروائی کی گئی اور انھیں جبری طور پر ریٹائر کردیا گیا۔ انکوائری کمیٹی کے ارکان سمیت یونیورسٹی میں ہر شخص اس بات سے واقف تھا کہ ان صاحب کے خلاف یہ سارا کیس وائس چانسلر نے بنوایا ہے لیکن کسی نے کوئی بات نہیں کی۔
دوسرا واقعہ گورنمنٹ ایم اے او کالج لاہور کا ہے جس میں ایک طالبہ نے پرچے میں پاس نہ کرنے پر انگریزی زبان و ادب کے استاد محمد افضل پر جنسی ہراسانی کا الزام لگادیا۔ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ افضل کے حق میں آنے کے باوجود کالج کے اس وقت کے پرنسپل نے افضل کو اس حد تک تنگ اور پریشان کیا کہ اس نے خودکشی کرلی۔ محکمہ اعلیٰ تعلیم نے افضل کی وفات کے بعد خود اس کیس کی انکوائری کرائی اور طالبہ اور پرنسپل کے خلاف واضح ثبوت ملنے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ دو واقعات وہ ہیں جن کی تفصیلات سے میں پوری طرح واقف ہوں۔ ایسے پتا نہیں کتنے ہی واقعات ہوں گے جن میں جنسی ہراسانی کا جھوٹا الزام لگا کر لوگوں کا جینا حرام کردیا جاتا ہے لیکن جنسی ہراسانی کا الزام کیونکہ صرف مرد پر لگتا ہے، اور ان دنوں سرمایہ داریت نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے عالمی سطح پر مردوں کو مردود قرار دے رکھا ہے، اس لیے جنسی ہراسانی کے قانون کے غلط استعمال پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

ای پیپر دی نیشن