معیشت کی مضبوطی کے لیے اعلانات نہیں، اقدامات کریں

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ معیشت مضبوط ہوتی ہے تو قوم کی آواز سنی جاتی ہے، کمزور معیشت کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ قرضے لے کر تنخواہیں ادا کررہے ہیں اور ترقیاتی کام کروا رہے ہیں، آخر ہم کب تک قرضے کی زندگی گزاریں گے۔ ٹیکس ایکسی لینس ایوارڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا پروگرام استحکام کے لیے ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ ہوگیا ہے اور اگلے ماہ قسط مل جائے گی مگر آئی ایم ایف کے ساتھ ایک اور پروگرام کرنا ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہمیں عوام کے مسائل حل کرنے ہیں اور سرخ فیتے اور نااہلیوں کو ختم کرنا ہے اور ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جس کے ذریعے آپ نے اپنے شعبوں میں محنت کر کے پاکستان کو معاشی ترقی کی دوڑ میں بڑھانا ہے جس میں وہ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ہمارے معاشی مسائل تبھی حل ہو سکتے ہیں جب ہم پرائیویٹ سیکٹر کے لیے اچھے مواقع پیدا کریں، انھیں پوری طرح سے سپورٹ کریں۔ کشکول کی پالیسی کو اب ترک کرنا ہوگا۔ اب تو کشکول لے کر نہ بھی جائیں تو اگلے کہتے ہیں کہ کشکول ان کی بغل میں ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے۔ اس تقریب کے علاوہ صدرِ مملکت آصف علی زرداری سے ہونے والی ملاقات میں بھی وزیراعظم نے ملک کی مجموعی سیاسی و معاشی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور دونوں رہنماؤں نے ملک کو درپیش مسائل سے نکالنے کے لیے مشترکہ عزم کا اظہارکیا۔ شہباز شریف جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سننے کے لیے بہت اچھا ہے لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ کون سے ایسے اقدامات کرتے ہیں جن کے ذریعے معیشت کو مضبوط بنایا جاسکتا ہو۔ ہر حکمران باتیں تو بہت اچھی کرتا ہے لیکن جب اقدامات کی باری آتی ہے تو سب کے کام ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اسی لیے ہماری معیشت مسلسل زوال کا شکار ہے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ اب وہ اعلانات اور بیانات سے آگے بڑھ کر ٹھوس اقدامات بھی کریں۔

ای پیپر دی نیشن