رضان المبارک کے مہینہ میں سیاسی سرگرمیاں عمومی طور پر کم ہو جاتی ہیں تاہم اس مرتبہ چونکہ الیکشن ابھی ایک ماہ پہلے ہی ہوئے ہیں لہٰذا سیاسی سرگرمیاں ماند نہیں پڑیں بلکہ سیاسی جوڑ توڑ تاحال جاری ہے۔ انتخابات 2024 کے بعد متعدد امیدواران کی جانب سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے معاملے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کیس ٹو کیس مختلف معیار اختیار کئے جانے کی شکایات سامنے آرہی ہیں ایک طرف تو 8 سے 10 ہزار لیڈ کی شکست سے ہارنے والے متعدد لیگی امیدواران کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کروائی جارہی ہے جسمیں ہزاروں مزید ووٹ مسترد ہونے کے بعد انکی جیت کا پروانہ جاری کیا جاری کیا جارہا ہے دوسری طرف چند سو ووٹ سے رہ جانے والے الیکشن کمیشن کے چکر لگانے پر مجبور ہیں اور انہیں الیکشن ٹربیونل سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی جارہی ہے۔ جنوبی پنجاب کے حلقہ این اے 154 لودہراں سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار 8 ہزار ووٹوں کی برتری سے کامیاب قرار پائے مگر سابق وزیر مملکت داخلہ عبدالرحمن کانجو کی ووٹوں کی دوبارہ گنتی منظور کرلی گئی اور مسترد ووٹوں کی تعداد میں اضافہ کے نتیجہ میں عبدالرحمن کانجو تہتر سو ووٹوں کی برتری سے کامیاب قرار پائے جس پر الیکشن کمیشن نے رانا فراز نون کو اسمبلی رکنیت سے ڈی نوٹیفائیڈ کرکے عبدالرحمن کانجو کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ اس طرح رانا فراز نون قومی اسمبلی کے چند اجلاسوں میں ہی شرکت کر پائے اور اب معاملہ پھر عدالت میں پہنچ گیا ہے۔ اسی طرح مظفر گڑھ کے صوبائی حلقہ پی پی 269 میں آزاد امیدوار اقبال خان پتافی کی دوبارہ ووٹوں کی درخواست الیکشن کمیشن سے منظور ہونے پر حیرت انگیز طور پر اس حلقہ سے کامیاب قرار دئے گئے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار میاں علمدار عباس قریشی مستعفی ہوگئے اور دوبارہ الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس حلقے میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اسی طرح ملتان کے حلقہ این اے 148 میں سید یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں صرف 104 ووٹوں کے فرق سے ہارنے والے امیدوار ملک تیمور الطاف مہے کی جانب سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست پر فیصلہ کئی ہفتے محفوظ رکھنے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انکی درخواست مسترد کردی ہے جبکہ اس حلقے سے منتخب ہونے کے بعد سید یوسف رضا گیلانی نے پہلے سینٹ سے استعفیٰ دیا اور قومی اسمبلی میں بطور ایم این اے حلف اٹھایا اور چند روز بعد دوبارہ سینٹ الیکشن میں حصہ لیکر سینیٹر منتخب ہوگئے اور اب وہ چیئرمین سینٹ کے مضبوط ترین امیدوار ہیں جبکہ انکی خالی کردہ نشست این اے 148 میں انکے اسمبلی سے باہر رہ جانے والے چوتھے صاحبزاے علی قاسم گیلانی کو میدان میں اتارا جارہا ہے اور متوقع طور پر وہ پاکستان پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ن کے متفقہ امیدوار ہونگے۔
ملتان میں گیلانی خاندان سیاست کا محور و مرکز ہی بنا ھوا ھے۔ ملتان کے حلقہ این اے 148 سے کامیاب ہونے والے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی جیت کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے آزاد امیدوار بیرسٹر الطاف تیمور مہے جبکہ مسلم لیگ ن کے احمد حسین ڈیہڑ نے الگ الگ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواستیں دی رکھی تھیں۔ ان درخواستوں پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ سناتے ہوئے انہیں خارج کر دیا۔ جبکہ ملتان سے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اب دوبارہ اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست پر کامیاب ہو چکے ہیں۔ یہ یقینی بات ہے کہ وہ سینٹ میں اپنے عہدہ کو برقرار رکھنا چاہ رہے ہیں تبھی تو این اے 148 میں فتح کے بعد انہوں نے سینٹ کا الیکشن پھر سے لڑا۔ این اے 148 سے استعفی کے بعد یہاں ضمنی الیکشن ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وقت سے پہلے انہوں نے اپنے چوتھے بیٹے سید علی قاسم گیلانی کو میدان میں اتار بھی دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ان کے بیٹے سید علی قاسم گیلانی مختلف حلقوں میں تنظیمی دورے کے ساتھ ساتھ انتخابی دورہ بھی کرتے رہے۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے ذرائع یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 148 میں سید علی قاسم گیلانی پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مشترکہ امیدوار ہوں گے۔ گزشتہ دنوں ملتان میں سلنڈر دھماکہ کے بعد فضا سوگوار رہی اس دوران مسلم لیگ نون کی مرکزی رہنما وزیراعلی پنجاب مریم نواز کا دورہ ملتان کا واضح اعلان بھی کیا گیا مگر پھر اس دورہ کو ملتوی کر دیا گیا ۔ان کے دورہ کے دوران انہوں نے ملتان کے علاقہ حرم گیٹ میں محلہ جوگیاں بھی جانا تھا اور سانحہ میں جا بحق ہونے والے اہل خانہ سے بھی ملنا تھا تاہم انتظامات کو حتمی شکل دیے جانے کے بعد دورہ نہ ہونے سے ملتان کے عوام اور لیگی کارکن مایوسی کا شکار نظر آئے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے ملتان کے شہر کے گرد و نواح میں سڑکوں کی ازسر نو تعمیر و مرمت کے واضح اعلانات کر دیے گئے ہیں۔ ان میں عرصہ دراز سے ٹوٹی ہوئی سڑکیں نواب پور روڈ ملتان میلسی روڈ ملتان وہاڑی روڈ لیہ ملتان میانوالی روڈ کی تعمیر اور ڈبل ویز روڈ بنانے کے منصوبے شامل ہیں۔ ملتان سی وہاڑی جانے والی روڈ عرصہ دراز سے بہت خراب چلی ا ٓرہی ہے۔ اس بارے میں کئی دفعہ اعلانات تو کیے گئے لیکن سڑک کی تعمیر کے متعلق واضح پلان نہیں دیا گیا۔ اب کی بار بھی سڑک کی تعمیر کا جو اعلان کیا گیا ہے اس پر عوام کو جانے کیوں زیادہ یقین نہیں آرہا ھے۔ اب عوامی حلقے مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ اعلانات کے مطابق اب سڑک کی تعمیر کو عملی طور پر بھی مکمل کرایا جائے۔ اسی طرح ملتان سے میلسی جانے والی سڑک بھی بری طرح سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جگہ جگہ کئی کئی فٹ گہرے گڑھے ہیں جن کی وجہ سے جان لیوا حادثات رونما ہوتے ہیں اس سڑک پر بھی تیزی سے کام کیے جانے کی ضرورت ہے۔ اعلان کے مطابق اگر یہ سڑکیں بن جاتی ہیں تو عوام کو تیز اور جدید سفری سہولت میسر ہوگی۔