حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات سے ایک اور آپریشن کی ضرورت محسوس ہورہی ہے لیکن اچانک یہ سلسلہ کیوں بڑھ رہا ہے جس سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاملات کی پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کو ان کے ملک میں واپس بھیج رہا ہے اور سرحدوں پر آمدورفت کیلئے قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے علاوہ افغانستان حکومت سے طالبان کو دہشت گردی کی کاروائیوں سے روکنے کا مطالبہ بھی کرتا رہا ہے۔ اس عمل میں بیک ڈور رابطوں کے باوجود دہشت گردی کے تمام واقعات کے ذمہ دار طالبان ہیں اور طالبان کو سرپرستی افغان حکومت کی ہے۔ پاکستان میں ہونے والے تمام واقعات اور طالبان کی دہشت گردانہ کاروائیاں افغان حکومت کی دوہری پالیسی کو عیاں کررہے ہیں ۔ایک طرف افغان حکومت پاکستان کو برادر اسلامی ملک قرار دیتی ہے تو دوسری طرف پاکستان کی عوام کو حکومت کے خلاف اکسانے کی کوشش کرتی ہے طالبان کے اس طرز عمل کے خلاف پاکستان کی قوم اور ادارے متحد ہیں کہ ان کیساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے ۔ورنہ اس صورت حال کا ملک دشمن عناصر بھر بھرپور فائدہ اٹھاتے رہے گے خاص طور پر بھارت پاکستان میں عدم استحکام کی غرض سے طالبان کی معاونت کررہا ہے گوادر تربت اور شانگلہ حملوں میں بھی یہی عناصر ملوث ہیں تاہم سکیورٹی فورسز ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹ رہی ہیں جبکہ شانگلہ حملے سے یہ بھی ظاہر ہورہا ہے کہ دہشتگرد پاکستان اور چین کے مشترکہ مفادات کو بھی نقصان پہنچانے کی سازش کررہے ہیں اور ان کا نشانہ حساس تنصیبات ہیں۔سی پیک پاکستان کے دشمنوں اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اسی لیئے اس کارروائی کا مقصد سی پیک کو بھی نشانہ بنانا ہے۔
عام انتخابات کے بعد اب نو منتخب حکومت اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہی ہے صوبوں میں بھی عوام کو ڈلیور کیا جارہا ہے لیکن بلوچستان میں وزیر اعلی کے حلف اٹھانے کے باوجود تاحال کابینہ کی تشکیل نہیں ہو سکی ہے جو سیاسی نااہلی ہے سیاسی استحکام کیلیئے یہ عمل جلد مکمل کرنا ہوگا۔بلوچستان میں دہشت گردی کی بڑھتی لہر کو سیاسی قائدین نظر انداز کرکے سیاسی بندر بانٹ میں مصروف عمل ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام۔سیاسی پارٹیاں پرامن بلوچستان کے حصول کے لیے ال پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کریں۔ پنجاب میں اسوقت ترقی کا نیا سفر شروع ہونے جارہا ہے مریم نواز نے مختلف عوامی فلاحی منصوبوں کی بنیاد رکھ دی ہے طالبات کے لیے موٹر سائیکلوں کی اسان اقساط پر فراہمی بھی احسن اقدام ہے اس منصوبے پر جماعت اسلامی کے قومی رہنما وقاص احمد بٹ نے پنجاب حکومت کے لیے موٹر سائیکل سکیم کے حوالے سے چند اہم تجاویز بھجوائی ہیں۔ وقاص احمد بٹ جماعت اسلامی کے رہنما اور سوشل ورکر ہیں وہ لکھتے ہیںالسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ پنجاب حکومت کی طرف سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے الیکٹرک بائیکس کو فروغ دینے کی کوششیں قابلِ تعریف ہیں اور ان الیکٹرک بائیکس کی طلبہ و طالبات کو بلاسود آسان اقساط پر فراہمی بھی ایک قابلِ ستائش عمل ہے- لیکن اس پروگرام میں مندرجہ ذیل کچھ خرابیاں ہیں، جن کی بروقت اصلاح کی ضرورت ہے:-
(1) طالبات کے استعمال کے لئے صرف الیکٹرک سکوٹرز ہی مناسب اور موزوں ہیں- پٹرول پر چلنے والی موٹر سائیکلز یا موٹر سائیکل کے ڈیزائن پر تیار کی گئی الیکٹرک بائیکس پر خواتین یا طالبات کا بیٹھنا انتہائی مشکل، نامناسب، معیوب اور پریشانی کا باعث ہے- طالبات کے لئے یہ بھی انتہائی مشکل اور پریشانی کا باعث ہے کہ وہ بطور صنفِ نازک کک (Kick) لگا کر پٹرول موٹر سائیکل سٹارٹ کریں، پٹرول بائیکس میں پٹرول ڈلوانے کے لئے پٹرول اسٹیشنز پر لگی بائیکرز مردوں کی لمبی قطاروں میں لگیں اور انجن آئیل کی تبدیلی کے لئے روایتی ورکشاپس پر جائیں- ان حقائق کے پیشِ نظر آپ سے استدعا ہے کہ 20,000 بائیکس کی بلاسود اقساط پر فراہمی کے اس پروگرام میں طالبات کے لئے ان کی آبادی کے تناسب سے کم از کم 10,000 الیکٹرک سکوٹرز کا کوٹہ مختص کیا جائے اور اس مجوزہ کوٹہ کو 31 دسمبر 2024 تک برقرار رکھا جائے- تجاویز میں نشاندہی کی گئی ہے کہ وزیر اعلیٰ پروگرام کے تحت 19,000 ریگولر (پٹرول موٹر سائیکل) شامل کئے گئے ہیں۔ جوفی کلومیٹرپٹرول اخراجات کے لحاظ سے بھی قابل عمل نہیںہے- لہٰذا طلبہ و طالبات کو صرف الیکٹرک بائیکس ہی بلاسود آسان اقساط پر فراہم کی جائیں۔