واربرٹن (نامہ نگار) انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں واربرٹن دہشت گردی کے مقدمہ میں ملوث تمام ملزمان کو 6اپریل کو پیش ہونے کا حکم، 88 میں سے پچاس سے زائد ملزمان ضمانتوں پر رہا ہو چکے ہیں جبکہ 35ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے پر بھی لاہور کوٹ لکھپت اور سنٹرل جیل میں بند ہیں۔ جن میں بے گناہ بھی شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ایک سال قبل 11فروری کو واربرٹن میں مقدس اوراق کی توہین کے الزام وارث علی کو شہریوں نے تھانہ واربرٹن میں داخل ہو کر پولیس حراست سے چھڑوا کر تشدد کر کے جان سے مار دیا تھا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ چند سال قبل اسی ملزم وارث علی نے توہین کی تھی مگر وہ اس مقدمہ میں عدالت کے ذریعے باہر آگیا تھا جس پر دوبارہ توہین کرنے پر شہریوں نے پولیس حراست سے چھڑوایا۔ واربرٹن پولیس نے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 17نامزد اور 800نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے پکڑ دھکڑ کر کے کئی بے گناہ شہریوں کو گرفتار کر کے بے گناہوں کے بھی چالان بنا کر کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا جو وقوعہ میں موجود ہی نہ تھے۔ ان میں رانا ساجد بھی شامل ہے جو پانچ بچوں کا باپ ہے اور اسے ایف آئی آر میں نامزد کیا۔ میٹرک کا طالبعلم ظاہر کر کے گرفتار کیا گیا تھا۔ شہریوں نے وزیر اعلی پنجاب مریم نواز، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور آر پی او رشیخوپورہ رینج مرزا اطہر اسماعیل امجد سے اپیل کی ہے کہ اس واقعہ میں ملوث مقدمہ 105/23کے دیگر ملزموں کو بھی رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں عید الفطر سے قبل رہا کیا جائے اور عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے مقدمہ خارج کیا جائے۔ ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے پر بھی انسداد دہشت گردی عدالت میں باقاعدہ ٹرائل شروع نہ ہو سکا جس کی وجہ پولیس چالان میں خامیاں بتائی جاتی ہیں۔