امر اجالا……اصغر علی شاد
shad_asghar@yahoo.com
مبصرین کے مطابق یہ امر انتہائی قابل ذکر ہے کہ بوسنیا کے مفتی اعظم کو یوم پاکستان کے موقع پر ستارہ قائد اعظم ایوارڈ سے نوازا گیا۔اس تمام صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے سنجیدہ سفارتی حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ یہ امر کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں کہ پاکستانی عوام کی ایک بھاری اکثریت بین المذاہب ہم آہنگی کے اصولوں پر مکمل یقین رکھتی ہے اور اسی تناظر میں رواں ہفتے میں سیکرٹری مذہبی امور ڈاکٹر سید عطاء الرحمن سے مفتی اعظم بوسنیا و ہرزیگووینا ڈاکٹر حسین کی ملاقات ہوئی۔ اس معاملے کی تفصیلات کے مطابق ملاقات میں قیام امن، تعلیم،مذہبی ہم آہنگی کے فروغ اور اسلاموفوبیا کے خاتمے کیلئے مل کر کام کرنے پر اتفاق ہوا۔ بوسنیائی وفد کو فتویٰ پیغام پاکستان اور خطباتِ قومی سیرت النبیﷺ کانفرنس کے انگلش متراجم بھی پیش کئے گئے۔ اس موقع پر سیکرٹری مذہبی امور ڈاکٹر سید عطاء الرحمن نے کہا پاکستانی عوام بوسنیا کے عوام سے تہذیبی، تاریخی اور مذہبی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں لہٰذا مذہبی تعلیم، اہم کتب کے متراجم، وفود کے تبادلوں اور دو طرفہ تعاون اور ایم او یو کیلئے تیار ہیں کیوں کہ حکومتی اور عوامی سطح پر وفود کے تبادلوں سے دو طرفہ تعلقات مزید مستحکم ہوتے ہیں۔ اس موقع پر مفتی اعظم بوسنیا و ہرزیگووینا ڈاکٹر حسین نے کہا کہ وہ بوسنیا میں قیام امن اور یو این فلاحی مشنز میں خدمات پاکستانی عوام اور حکومت کے شکر گذار ہیں۔انہوں نے اسی ضمن میں اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہ بوسنیا میں کئی کلیدی عہدو ں پر تعینات شخصیات نے پاکستان سے تعلیم حاصل کی ہے۔پاکستان اور بوسنیا کے عوام مضبوط رشتے میں بندھے ہیں حج، اوقاف، مذہبی تعلیم کے سلسلے میں ایک دوسرے کے تجربا ت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور وہ اپنے پاکستانی بھائیوں کو رمضان المبارک اور یوم آزادی کی مبارکباد دیتے ہیں۔ مبصرین نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مزید کہا ہے کہ بوسنیا و ہرزیگوینا کی اسلامی کمیونٹی کے مفتی اعظم ڈاکٹر حسین ایف کاوازوچ نے ریکٹر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ ملک سے بھی ملاقات کی۔ملاقات کے دوران اسلامی یونیورسٹی اور بوسنیا و ہرزیگووینا کی یونیورسٹیوں کے درمیان دو طرفہ تعلیمی تعلقات کو وسعت دینے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ اسلامی علوم، آئمہ کی تربیت، فقہ اور قانون کے شعبوں میں تعاون پر بھی گفتگو ہوئی۔ اس دوران مفتی اعظم نے مسلم دنیا کی خدمت میں اسلامی یونیورسٹی کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ بوسنیا میں بہت سے علمائے کرام، بیوروکریٹس، آئمہ اور سکالرز موجود ہیں جنہوں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے استفادہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی یونیورسٹی کا وڑن بوسنیا اور ہرزیگووینا کی یونیورسٹیوں کے اسلامی علوم کی فیکلٹیوں کے مشابہ ہیں۔ انہوں نے بوسنیا اور پاکستان کے عوام کے درمیان دوستی کے گہرے رشتوں کو بھی سراہا۔ اس موقع پر مفتی اعظم کے ہمراہ بوسنیا اور ہرزیگووینا کے سفیر ایمن کوہوڈاریوچ بھی تھے۔یاد رہے کہ اس موقع پر ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ تعلیم کے شعبے میں باہمی تعاون اور تجربات کے تبادلے کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر جلد دستخط کیے جائیں گے تاکہ دوطرفہ تعلقات کو عملی طور پر فروغ دیا جا سکے۔ملاقات کے دوران، ڈاکٹر ثمینہ ملک نے مفتی اعظم کو 23 مارچ کو صدر پاکستان کی طرف سے عطا کردہ ستارہ قائد اعظم ایوارڈ کی مبارکباد دی۔ انہوں نے انہیں یونیورسٹی کی خدمات، کردار، وڑن اور مستقبل کے اہداف کے بارے میں آگاہ کیا اور ساتھ ہی انہوں نے بین الاقوامی اساتذہ اور طلباء کی موجودگی کے علاوہ یونیورسٹیوں کی فیکلٹی کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔اس موقع پر مفتی اعظم نے قرآن پاک کا ایک نادر نسخہ ریکٹر جامعہ کو پیش کیا جبکہ یونیورسٹی کی ریکٹر نے مفتی اعظم کو یونیورسٹی کی یادگاری شیلڈ پیش کی۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے سنجیدہ حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ اس بابت ہر ذی شعور بخوبی جانتا ہے کہ پاکستان نے اپنے قیام کے روز اول سے ہی یہ کوشش کی ہے کہ وہ اپنے سبھی ہمسائیوں سمیت تمام ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات قائم رکھے اور اس ضمن میں پاکستان کوبڑی حد تک کامیابی بھی ملتی رہی ہے یہ وجہ ہے کہ 1992میں بوسنیا و ہرزیگووینا کی آزادی کے ساتھ ہی پاکستان کے تعلقات بوسنیا کے ساتھ خوشگوار رہے ہیں اور ان دنوں بھی گاہے بگاہے حکومتوں کی تبدیلوں کے باوجود ان دونوں ممالک کے تعلقات مثالی حد تک بہتر ہیں۔اسی تناظر میں بوسنیا کا ایک مختصر تعارف بیجا نہ ہو گا۔
بوسنیا و ہرزیگووینا یورپ کا ایک نسبتاً نیا ملک ہے جو پہلے یوگوسلاویہ میں شامل تھا۔ اس کے دو حصے ہیں ایک کو ’’وفاق بوسنیا و ہرزیگووینا‘‘ کہتے ہیں اور دوسرے کا نام’’سرپسکا‘‘ ہے۔ وفاق بوسنیا و ہرزیگووینا کی بھاری اکثریت مسلمان ہے اور سرپسکا میں مسلمانوں کے علاوہ سرب، کروٹ اور دیگر اقوام بھی آباد ہیں۔ یہ علاقہ یورپ کے جنوب میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ51,129 مربع کلومیٹر ہے۔اس ملک تین اطراف سے کرویئشا کے ساتھ سرحد ہے یعنی یہ خشکی سے گھرا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی یورپی اقوام نے اس علاقے کی آزادی کے وقت اس بات کو یقینی بنایا تھاکہ اسے ساحلِ سمندر نہ مل سکے چنانچہ اس کے پاس صرف 26 کلومیٹر کی سمندری پٹی ہے اور کسی بھی جنگ کی صورت میں بوسنیا و ہرزیگووینا کو محصور کیا جا سکتا ہے۔ اس کے مشرق میں سربیا اور جنوب میں مونٹینیگرو کے ساتھ سرحد ملتی ہے۔ سب سے بڑا شہر اور دار الحکومت سرائیوو ہے جہاں 1984ء کی سرمائی اولمپک کھیلوں کا انعقاد ہوا تھا جب وہ یوگوسلاویہ میں شامل تھا۔ تاحال آخری بار ہونے والی 1991ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 44 لاکھ تھی جو ایک اندازہ کے مطابق اب کم ہو کر 39 لاکھ ہو چکی ہے۔ کیونکہ 1990ء کی دہائی کی جنگ میں لاکھوں لوگ قتل ہوئے جن کی اکثریت مسلمان بوسنیائی افراد کی تھی اور بے شمار لوگ دوسرے ممالک کو ہجرت کر گئے تھے۔