سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلیوں پر سماعت ہوئی، جہاں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بنچ اس کیس کی سماعت کررہا ہے، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید بنچ میں شامل ہیں، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بھی بنچ کا حصہ ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ دوران سماعت سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی، اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ ’صرف ان کیسز کے فیصلے سنائے جائیں جن میں نامزد افراد عید سے پہلے رہا ہوسکتے ہیں‘، اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’مجموعی طور پر 103 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں، بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دے کر رہا کیا جائے گا، عید تک 9 مئی کے ان ملزمان میں سے 20 کو رہا کر دیا جائے گا، مجوزہ طریقہ کار کے بعد ان 20 افراد کو رہا کیا جائے گا‘۔ بتایا جارہا ہے کہ گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق اٹارنی جنرل سے محفوظ شدہ فیصلوں کی سمری طلب کی تھی، سماعت کے آغاز پر درخواستگزار جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ’103 ملزمان زیر حراست ہیں، ان کے اہل خانہ عدالتی کارروائی میں شامل ہونا چاہتے ہیں چنانچہ عدالت اہل خانہ کو سماعت دیکھنے کی اجازت دے‘، جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ ’کمرہ عدالت بھرا ہوا ہے، انہیں کہاں بیٹھائیں گے؟ عدالت آنے پر اعتراض نہیں ہے، ان کا معاملہ دیکھ لیتے ہیں‘۔ دوران سماعت خیبرپختونخوا حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف دائر اپیلیں واپس لینے کی استدعا کر دی، خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے صوبائی کابینہ کی قرارداد عدالت میں پیش کی، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ’کابینہ قرارداد پر تو اپیلیں واپس نہیں کرسکتے، مناسب ہوگا کہ اپیلیں واپس لینے کیلئے باضابطہ درخواست دائر کریں‘۔ سماعت کے دوران فوجی عدالتوں کے خلاف درخوست گزاروں نے بنچ کے ساتھ نجی وکلا پر بھی اعتراض عائد کرتے ہوئے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ’سرکاری اداروں کی جانب سے اٹارنی جنرل نے پانچ اپیلیں دائر کر رکھی ہیں، بعض وزارتوں کی جانب سے نجی وکلاء کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، اٹارنی جنرل نے خود اپیلیں دائر کی ہیں تو عوام کا پیسہ نجی وکلاء پر کیوں خرچ ہو؟‘۔ جب کہ وکیل خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ ’بنچ کی تشکیل کیلئے مناسب ہو گا کہ معاملہ دوبارہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے، پہلے بھی 9 رکنی بنچ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی‘، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ’پہلے ہی 9 رکنی بنچ بن جاتا تو آج اپیلوں پر سماعت ممکن نہ ہوتی‘۔