28 مئی ایک تاریخ ساز دن ہے جب پاکستان دنیاکی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا تھا چاغی میں 50 کلو ٹن ٹی اینڈ ی طاقت کے پانچ دھماکے کئے گئے۔ بھارتی دھماکوں کو طاقت 43 کلو ٹن تھی‘ پاکستانی دھماکے وقت کے لحاظ سے بھی‘ بھارتی دھماکوں سے برتر تھے اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بھی بہتر تھے پاکستان امن پسند ملک ہے‘ وہ علاقے میں ہتھیاروں ‘ خاص طور پر وہ ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلائو اور ایٹمی ہتھیاروں پر مکمل پابندی سے متعلق معاہدوں پر دستخط کرنے کے لئے بھی تیار تھا‘ اس کی ایک ہی شرط تھی کہ بھارت بھی ایسا کر ے‘ تاکہ بعد میں بھارت ایٹمی طاقت بن کردوسرے ملکوں کے لئے وبال جان نہ بن جائے۔ بھارت نے 1974ء میں پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تھا‘ عالمی سطح پر اس کی جو مذمت کی گئی تھی اس میں پاکستان بھی شریک تھا۔ پاکستان نے جان لیا تھا کہ بھارت کے ارادے نیک نہیں وہ ایٹمی ٹیکنالوجی پر بہت پہلے دسترس حاصل حاصل کر لی تھی۔ لیکن اس نے ایٹمی توانائی کو پرامن مقاصد کے لئے مختص رکھا۔ 1974ء کے بعد اس پر کھلا کہ بھارت کے ساتھ معاملہ فہمی کے لئے بھی ایٹمی طاقت بننا ضروری ہے۔چنانچہ اس کے لئے افرادی و مادی اسباب مہیا کئے جانے چاہئیں۔ پاکستان کے ایٹمی سائنس دانوں نے اس باب میں نمایاں پیش رفت کی یورنیم کے ذخائر تلاش کئے یورینیم کو افزودہ کرنے کے لائق اعتماد طریقے دریافت کئے اور بنیادی اہمیت کے ایٹمی تجربات دھماکہ کئے بغیر کر لئے جیسا کہ وطن عزیز کے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہا تھا کہ پاکستان پندرہ سولہ برس پہلے ایٹمی دھماکہ کرنے کے قابل ہو گیا تھا لیکن مصلحت اسی میں سمجھی کہ دھماکہ نہ کیا جائے اور ایٹمی اسلحہ کی دوڑ میں شامل ہونے سے گریز کیا جائے لیکن جب بھارت نے تمام تر عالمی قوانین کیدھجیاں اڑاتے ہوئے پانچ ایٹمی دھماکے کر کے علاقے کے امن و سلامتی کو سنگین خطرے سے دوچار کردیا تھا اور پاکستان کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں تو پاکستان کے عالمی برادری کی توجہ بگڑتی ہوئی صورتحال کی طرف دلائی۔ جیسا کہ اس وقت کے وزیراعظم محمد نوازشریف نے قوم سے اپنے نشری خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان اس انتظار میں رہا کہ بڑی طاقتیں ایٹمی دھماکے کرنے پر بھارت کی گرفت کریں گی۔ اس پر سخت پابندیاں عائد کریں گی اور اسے احساس دلائیں گی کہ اس نے 21 ویں صدی کی دہلیز پر پہنچ کر امن اور بھائی چارے کی فضا اور ماحول استوار کرنے کی بجائے توسیع پسندی اور جارحیت کا مجنونانہ کھیل شروع کر دیا ہے اور اقوام متحدہ اور بڑی طاقتیں اور پر روک ٹوک لگانے سے قاصر ہیں تو پاکستان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ وہ اپنی ایٹمی صلاحیت کا اظہار کرتا اور بھارت پر واضح کر دیتا کہ پاکستان اینٹ کا جواب پتھر سے دینے اور جارح کے دانت توڑ دینے کے پوری طرح اہل ہے۔ محمد نوازشریف جو اس وقت بھی وزیراعظم تھے سے امریکی صدر‘ برطانوی وزیراعظم‘ جاپان‘ جرمنی فرانس کے رہنمائوں نے دھماکہ نہ کرنے کی صورت میں طرح طرح کی مراعات اور سہولیات پیش کش کی اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ دھماکہ کیا گیا تو سخت پابندیاں لگیں گی امداد بند ہو جائے گی۔ تجارت محدود ہو جائے گی اور نتیجے میں سخت اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔پاکستان کی قیادت نے حقائق کے پیش نظر یہی مناسب سمجھا کہ ایک
خودداراور باوقار قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے‘ ملک کی سالمیت‘ آزادی اور خود مختاری کا تحفظ کرنا ہے تو پھر ہر طرح کی مصلحتوں سے بلند رہتے ہوئے ایٹمی دھماکے کر دینے چاہئیں۔
آج بھی نوازشریف وزیراعظم پاکستان ہیں اور یوم تکبیر تو ہر سال شان و شوکت سے منایا ہی جاتا ہے مگر آج یوم تکبیر کے دن کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی جیسے مسائل کا سامنا ہے اور امید ہے کہ موجودہ حکومت اس صورتحال پر بھی قابو پا لے گی۔ ان تمام چیلنجز سے نمٹنے کی موجودہ قیادت میں بدرجہ اتم صلاحیتیں موجود ہیں اور قوم بھی ان کے ساتھ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وطن کو ایک امن پسند ملک بنانے کے لئے اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کے لئے تمام تر باہمی اختلافات کو بھلا کر اور فرقہ واریت کے زہر کو پھینک کر ایک آواز ایک جان ہونا ہو گا۔
یوم تکبیر
May 28, 2014