وزیراعظم نواز شریف کی بھارت یاترا

میاں نواز شریف کی بھارت سے محبت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ہندوستان کے سابق وزیراعظم واجپائی میاں نوازشریف کی دعوت پر بس پر سوار ہوکر براستہ واہگہ لاہور چلے آئے تھے جس طرح بھٹو خاندان کے کانگرس کے لیڈروں کے ساتھ قربت کے تعلقات ہیں پی پی پی اور کانگرس ترقی پسند لبرل جماعتیں ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ اور بی جے پی مذہبی رجحانات رکھنے والی سیاسی جماعتیں ہیں اور ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ میاں نواز شریف نے انتخابی مہم کے دوران بھارت کے ساتھ دوستی اور خیرسگالی پر مبنی بیانات دئیے تھے۔ ان کے یہ بیانات دلیرانہ تھے البتہ ان میں تاجرانہ خواہشات بھی پوشیدہ تھیں۔ تاجر فطری طور پر بڑی منڈی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے انتخابات میں کامیابی کے بعد کہا کہ عوام نے ان کو پاک بھارت دوستی کے لیے ووٹ دئیے ہیں۔ انہوں نے جوش جذبات میں بھارت کے وزیراعظم منموہن سنگھ کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت بھی دے دی جو مسترد کردی گئی۔ بھارت کے نومنتخب وزیراعظم نریندرمودی کٹڑ اور متعصب ہندو ہیں ان کی پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی سے پوری دنیا آگا ہ ہے۔ نریندر مودی نے انتخابی مہم کے دوران پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دئیے مگر انتخاب جیتنے کے بعد پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو حلف برداری میں شرکت کی دعوت دے کر برصغیر کے مسلمانوں اور عالمی طاقتوں کو حیران کردیا۔ یہ دعوت ڈپلومیسی کا ایک انداز ہے۔ نریندر مودی کے افسوسناک بلکہ شرمناک سیاسی پس منظر میں میاں نواز شریف کے لیے دعوت کو قبول کرنا آسان کام نہ تھا۔ پاکستان کے عوام بجا طور پر بھارت کو دشمن ملک تصور کرتے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے سپہ سالار جنرل راحیل شریف سے ملاقات کرکے بھارتی دعوت کے سلسلے میں این او سی حاصل کرلیا۔ پاکستان نے سفارتی ذرائع سے بھارت کو نریندر مودی اور نواز شریف کے درمیان ون ٹو ون ملاقات پر آمادہ کرلیا۔
بھارت ہمیشہ بالادستی کا خواہاں رہا ہے۔ مودی کی حلف برداری کی تقریب میں سارک ممالک کے سربراہوں کو شرکت کی دعوت میں بھی یہی خواہش کارفرمانظر آتی ہے۔ تقریب میں سات ممالک کے سربراہوں کی شرکت سے پوری دنیا میں یہ پیغام جائے گا کہ بھارت جنوبی ایشیاءکا اہم ترین ملک ہے جس کے وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں سارک ممالک کے سربراہ شریک ہوئے۔ ایسے افراد کی کمی نہیں جو پاک بھارت ممالک کے سربراہوں کی ملاقات کے بعد کہیں گے۔
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کر بد مزہ نہ ہوا
وزیراعظم پاکستان نے مودی سے ملاقات سے پہلے 151بھارتی ماہی گیررہا کرکے مودی کو سلامی بھی بھیج دی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اس خیرسگالی کے جواب میں کتنے پاکستانی قیدیوں کو رہا کرتا ہے۔ پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جہانگیر اشرف قاضی نے میاں نواز شریف کے بھارتی دورے کی مخالفت کی ہے۔ ان کا مو¿قف یہ ہے کہ حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم پاکستان کی شرکت مناسب نہ تھی۔بھارت کے نئے وزیراعظم کا پاکستان کے بارے میں رویہ اور حکمت عملی کا انتظار کیا جاتا۔ مجاہد صحافت ڈاکٹر مجید نظامی نے پیشین گوئی کی ہے کہ نریندر مودی پاکستان کے لیے خطرناک ترین وزیراعظم ثابت ہوگا۔ آر ایس ایس جیسی انتہا پسند تنظیم حکومتی طاقت کی مالک ہوگی۔ ایک امریکی سکالر نے انتباہ کیا ہے کہ مودی کے دور حکومت میں پاکستان کے اندر مداخلت میں اضافہ ہوجائے گا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور جماعة الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید نے بھی دورے کی مخالفت کی ہے۔ ان کے خیال میں وزیراعظم کے دورے سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچے گا۔
 پاکستان کی کم و بیش تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے دورے کی حمایت کی ہے۔ 2008ءمیں ممبئی کے واقعہ کے بعد پاک بھارت مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹ گیا تھا اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں نواز شریف پاک بھارت مذاکرات کا آغاز کرانے میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید سقوط ڈھاکہ کے بعد اندرا گاندھی سے ملاقات کے لیے خالی ہاتھ گئے تھے مگر انہوں نے بے مثال خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے بھارت کی قید سے نوے ہزار جنگی قیدی بلامشروط رہا کرالیے تھے اور پاک سر زمین کا لاکھوں ایکڑ رقبہ بھی واگزار کرالیا تھا۔ میاں نواز شریف تجربہ کارسیاستدان ہیں اور تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں مگر ان کی ملاقات بھارت کے ایسے وزیراعظم سے ہورہی ہے جو متعصب ہندو ہیں وہ فوری طور پر کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔
بی جے پی کے ترجمان پرکاش نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مودی حکومت واجپائی کے نقش قدم پر چلے گی جنہوں نے کہا تھا کہ ”ہم دوستوں کا انتخاب کرسکتے ہیں مگر پڑوسیوں کا نہیں کرسکتے کیونکہ پڑوسی تبدیل نہیں ہوسکتے“۔ مودی اور واجپائی کے مزاج اور فطرت میں بہت فرق ہے۔ مودی وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد کس حد تک بدل جائیں گے اس کا فیصلہ چند ماہ میں ہوجائے گا۔ بھارت کی اسٹیبلشمینٹ طاقتور ہے وہ خارجہ امور کے سلسلے میں مودی کو متوازن رکھنے کی کوشش کرے گی۔ بھارت کے مسلمانوں نے وزیراعظم پاکستان کے دورے پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔ ان کے خیال میں پاک بھارت تعلقات میں دوستی اور خوشگواری سے بھارتی مسلمانوں کو فائدہ ہوگا۔ بھارت کی حکومت ان کے بارے میں نرمی کا مظاہرہ کرے گی۔ 1947ءکے بعد میاں نواز شریف پہلے وزیراعظم ہیں جو بھارت کے وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کررہے ہیں۔ سفارتکاری کے ماہر اور تبصرہ نگار پاک بھارت سربراہوں کی ملاقات سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کررہے البتہ ان کے خیال میں اس ملاقات سے برف ضرور پگھلے گی اور جامع مذاکرات کا ٹوٹا ہوا سلسلہ ایک بار پھر جڑسکے گا۔ میاں نوازشریف نے پاک بھارت تعلقات کو 1999ءسے آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کے اجارہ دار تاجر خوش ہیں کہ وزیراعظم کے دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوگا اور ان کے لیے بڑی منڈی کا دروازہ کھل جائے گا۔ میاں نواز شریف اور ان کے صاحبزادے حسین نواز بھارتی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت ایٹمی ملک ہیں جو چار جنگیں لڑچکے ہیں۔ دونوں ملکوں میں غربت کے جزیرے موجود ہیں اگر پاکستان اور بھارت کے تعلقات خوشگوار ہوجائیں تو غربت کے خاتمے کے لیے وسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے مگر کیا کیجئے ہندوذہن اور بھارتی بالادستی کا خواب تعلقات میں آڑے آتا ہے۔ بھارت کشمیر اور پانی کے تنازعہ کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ یہ دونوں مسئلے پاکستان کی سلامتی، بقاءاور مستقبل کے لیے بڑے اہم ہیں۔ جب تک یہ کور ایشوز حل نہ ہوں تعلقات نارمل نہیں ہوسکتے۔ بلوچستان میں بھارت کی مداخلت تشویشناک ہے۔ پاکستان کے عوام کی نظریں وزیراعظم نواز شریف پر لگی ہوئی ہیں۔ وزیراعظم پاک بھارت تعلقات دوستانہ بنانے کے لیے بڑے پرجوش رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ بھارت سے پاکستان اور کشمیر کے عوام کے لیے کیا خیر کی خبر لاتے ہیں۔ خدا کرے کہ وزیراعظم نواز شریف کی بھارت یاترا بھارت کے مسلمانوں اور پاکستان و کشمیر کے عوام کے لیے نیک فال ثابت ہو۔ وزیراعظم کے وفد میں سرتاج عزیز، طارق فاطمی، سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری، بیگم کلثوم نواز اور حسین نواز شامل ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے دہلی ایئر پورٹ پر کہا کہ وہ بھارت کے لیے امن اور ڈائیلاگ کا پیغام لائے ہیں۔ انہوں نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا۔
پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ

ای پیپر دی نیشن