یوم تکبیر پاکستان کی تاریخ کا سنگ میل ہے۔ یہ ایک دن کی کہانی نہیں بلکہ صدیوں کا تجربہ اور برسوں کی محنت کا ثمر ہے۔ گو جنرل پرویزمشرف کے یو ٹرن نے یوم تکبیر کو پس پشت ڈال دیا ہے اور بدقسمتی سے بعد میں آنے والی جمہوری حکومتوں نے بھی دانستہ یا نادانستہ پرویزمشرف کی ’’دھمکی بہ نیم شب‘‘ پالیسی کو اپنا لیا۔ یوم تکبیر نوازشریف کی اختراع ہے اور آج نوازشریف سرکار کیلئے یوم تکبیر کی تقریب سے زیادہ گجرات (بھارت) میں مسلم نسل کش کے ہیرو نریندر مودی کی تقریب حلف وفاداری اہم ہے جبکہ وزیراعظم نوازشریف اپنے جلاوطنی اور قائد حزب اختلاف کے عرصے میں یوم تکبیر کا فخریہ کریڈٹ لیتے تھے اور اپنی اقتدار سے معزولی کو امریکہ کی سازش قرار دیتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یو ٹرن قائدین پرویزمشرف‘ زرداری اور شریف برادران دن بھر جس دھماکے کا چرخہ کاتتے ہیں‘ شام کو ادھیڑ دیتے ہیں۔ ہمارے لئے مخلص اور جرأتمند قیادت کے باعث ایٹم بم اور دیگر ایٹمی‘ دفاعی اسلحہ بنانا آسان تھا اور یو ٹرن قیادت کیلئے ایٹم بم اور ایٹم ساز سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سنبھالنا مشکل بن گیا ہے۔
یوم تکبیر کا فوری سبب بھارت کا 1974ء میں ایٹمی قوت بننے کا اعلان ہے جبکہ بھارت نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی 16 دسمبر 1971ء میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان یورپ کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان کی حیثیت سے دنیوی ترقی‘ آسائش اور آسودگی کی زندگی گزار رہے تھے۔ یہ بے لوث حب الوطنی کے جذبے کے تحت پاکستان آئے اور حکومت پاکستان کو ایٹمی قوت بنا لینے کیلئے اپنی خدمات پیش کی جو ایٹمی پلانٹ کے سربراہ ڈاکٹر منیر احمد خان کی حوصلہ شکن پالیسی کے باعث ناکام رہا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان دوبارہ یورپ چل گئے۔ بعدازاں بھی مخلص اکابرین ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو دوبارہ وطن لانے اور کام کا ابتدائی لائحہ عمل طے ہوا تھا کہ تحریک نظام مصطفی 1977ء کے نتیجے میں پاکستان میں ایسی فوجی قیادت برسراقتدار آگئی جس کی فوجی پالیسی سقوط ڈھاکہ کا انتقام تھا۔ پاکستان 1982ء تک ایٹم بم‘ ہائیڈروجن بم‘ دیگر مہلک ایٹمی ہتھیاروں‘ دنیا کا بہترین میزائل سسٹم‘ بالادست سیٹلائٹ سسٹم بنا لیا تھا۔
اس حکومت کی دفاعی پالیسی دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں کا کائونٹر یعنی متبادل بنانا تھا۔ اس وقت پاکستانی فوجی سرکار نے 1982ء میں چاغی کی کھدائی کرائی مگر دھماکے چین کی سرزمین پر کئے۔ یہی فوجی سرکار شریف اور چودھری برادران کی سیاسی مربی اور محسن تھی۔ شریف برادران کا سیاسی سفر بھٹو خاندان کی طرح محسن کشی کا ہے کہ آج ان کے اکابر قیادت اپنے محسن پر غداری کے مقدمات کا ذکر کرتے پھرتے ہیں۔محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان دین و وطن سے وقار کے پیکر ہیں۔ یہ قوم کے ہیرو ہیں جنہوں نے ریاست پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنایا مگر حکومت پاکستان نے ان کے ساتھ محمد بن قاسم جیسا سلوک کیا۔ انہیں نظربند کیا گیا اور قومی اور عالمی میڈیا پر معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا۔
یوم تکبیر دین و وطن کی بالادستی کا اعلان ہے۔ یوم تکبیر کیلئے دین و وطن سے وفا کے پیکر درکار ہیں۔ آج بھی وہ قیادت درکار ہے جس کی سربراہی میں پاکستان ایٹمی قوت بنا اور چاغی میں دھماکے کرنے والی شریف قیادت چاہئے جس نے جنرل پرویزمشرف کے برعکس امریکی و عالمی دبائو‘ دھمکی اور لالچ کے بالکل پروا نہیں کی۔ آج پھر شریف برادران کی حکومت ہے مگر یہ حکومت یوم تکبیر کے جذبے سے عاری نظر آتی ہے۔ ان کی یو ٹرن پالیسی قوم کی عقل و دانش سے بالاتر ہے۔ اے کاش یوم تکبیر کی قیادت واپس آجائے اور ملک و قوم کیلئے تکبیر الٰہی اللہ کا نعرہ لگائے پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔