تقسیم ہند کے موقع پر لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے پاکستان کو ایٹمی قوت بنے 16برس گزر چکے ہیں۔ایٹمی صلاحیت کا حصول اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور پاکستان کی بقا ، سلامتی و استحکام کی ضامن ہے۔گذشتوں برسوں کی طرح امسال بھی یوم تکبیر انتہائی جوش و خروش سے منایاجارہا ہے تاکہ پاکستان کے ازلی دشمنوں کا احساس دلایا جائے کہ پاکستانی قوم کے بچے بچے میں آج بھی وہی جذبے موجود ہیںجو 28مئی 1998ءکو ایٹمی دھماکے کرتے وقت تھے اس لئے وطن عزیز پاکستان کی سالمیت کے خلاف شروع دن سے سازشیں کرنے والے ہمیں ترنوالہ نہ سمجھیں۔ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی وجہ سے بھارت پاکستان کے خلاف کسی جارحیت کا ارتکاب کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔اس لئے وہ براہ راست حملہ کی بجائے پاکستان کو نظریاتی بنیادوں پر کمزور اور اس کی اندرونی وحدت کو تبدیل کرکے انتشار کی کیفیت پیدا کرکے اسے کمزور اور غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔انڈیا نے پاکستان کے وجود کو پہلے دن سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ اس کی دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔جب بھارت نے مشرقی پاکستان پر باقاعدہ فوج کشی کر کے ساری دنیاکے سامنے اسے پاکستان سے الگ کیا تو اس کے اگلے دن 17دسمبر 1971ءکواس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندراگاندھی نے لوک سبھا میں کھڑے ہو کر کہا تھاکہ ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میںڈبو دیا ہے۔ یہ پورے پاکستان کیلئے پیغام تھا کہ وہ مغربی پاکستان میں بھی یہی کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی جب انڈیا پاکستان کے خلاف مذموم سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے باز نہ آیا تواس ساری صورتحال کو بھانپتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے1974ءمیں بھارت کی جانب سے کئے جانے والے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی توانائی کے حصول کی کاغذی منصوبہ بندی کو عملی شکل دی اور یہ اعلان کرکے دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچادی کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔یوں اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین منیراحمد خان نے اس نیک کام کا بیڑہ اٹھایا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو نے ہالینڈ میں موجود نوجوان پاکستانی ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات حاصل کیں اورانہیں سنٹری فیوجز کے حصول پر مامور کیا جنہوں نے ایٹمی سائنس دانوں کی مستعد ٹیم کے ارکان بشمول ڈاکٹر ثمرمبارک مند کی معاونت سے ملک کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا۔28مئی 1998ءکو پاکستان کے ایٹمی دھماکوںکا پس منظر یہ تھا کہ بھارت نے ایک بار پھرایٹمی دھماکے کر کے طاقت کا توازن برباد کر کے رکھ دیا تھا اورہندو انتہاپسند تنظیم بی جے پی جو ان دنوں برسراقتدار تھی‘ کے لیڈروں اور دیگر بھارتی جماعتوں کی طرف سے کھلم کھلا دھمکیاں دی جارہی تھیں کہ ہم پاکستان کوصفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔ یہ بہت مشکل وقت تھا۔ پاکستانی اور کشمیری مسلمانوں سمیت پوری مسلم امہ میں سخت بے چینی پائی جاتی تھی۔ امریکی صدر بل کلنٹن اور دیگر یورپی ممالک کی طرف سے وزیر اعظم نواز شریف کو شدید دباﺅ کا سامنا تھا۔ایک طرف دھونس و دھمکیوں کے ذریعہ انہیں ڈرایا جارہا تھا، ایٹمی دھماکوں کی صورت میں پابندیاں لگانے کی باتیں کی جارہی تھیں تو دوسری طرف ان کی بات تسلیم کرنے کی صورت میں ایف سولہ طیاروں کی فراہمی اور طرح طرح کے لالچ دیے جارہے تھے۔ پورے ملک میں ایک غیر یقینی کی کیفیت تھی۔ اس دوران ادارہ نوائے وقت کے مدیر ڈاکٹر مجید نظامی کی طرف سے ادا کیاجانے والا کردار تاریخ میں سنہرے حروف میںلکھا جائے گا جنہوںنے صاف طورپر کہا تھاکہ نواز شریف صاحب ! آپ نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔ ان کے ترغیب دلانے اورپوی قوم کے دباﺅ پراللہ تعالیٰ کی توفیق سے نواز شریف حکومت نے بھی ایٹمی دھماکے کر ڈالے اور بھارت کے دانت کھٹے کر کے ہمیشہ کیلئے تاریخ میں اس سعادت کو اپنے نام سے محفوظ کرلیا۔پاکستان کے ایٹمی قوت بننے پر پوری دنیا میں مسلمانوںنے بے پناہ خوش کااظہار کیا اور اسے عالم اسلام کا ایٹم بم قرار دیا جبکہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے والے بھارت کے ہوش ٹھکانے آگئے اور صبح شام زہر اگلنے والے بی جے پی لیڈروں کی زبانیں بھی خاموش ہو گئیں۔آج ایک بار پھر جب پاکستان میں یوم تکبیر کا دن منایا جارہا ہے ۔
بھارت میں اسی ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کے لیڈر نریندر مودی کی حکومت ہے جس کی زیر سرپرستی احمد آباد گجرات میں ہزاروںمسلمانوں کا قتل عام کیاگیا۔ سینکڑوں مسلمانوں کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ ماﺅں کی آنکھوں کے سامنے معصوم بچوں کو آگ میں پھینکا گیا اور مسلمانوں کی املاک برباد اور ان پیاروں کی لاشیں جلا کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دی گئیں۔ تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرا رہی ہے۔ نریندر مودی اور بی جے پی لیڈروں کی زبانیں ایک بار پھر پاکستان کیخلاف زہر اگل رہی ہیں۔ کبھی بھارتی مسلمانوںکو پاکستان چلے جانے کا مشورہ دیاجاتا ہے۔ گائے کے ذبیحہ پر پابندیاں لگانے اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیرکی باتیں کی جاتی ہیں تو کبھی اسامہ بن لادن کو شہید کئے جانے کی طرز پر پاکستان میں آپریشن کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ پاکستان میں بھی اس وقت ایٹمی دھماکے کرنیوالی مسلم لیگ (ن)کی حکومت ہے لیکن بی جے پی کی دھمکیوں اور پاکستان کیخلاف خوفناک منصوبہ بندیوں کے جواب میں وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی حکومت کی جانب سے وہ جرا¿تمندانہ کردار دیکھنے میں نہیں آرہا جو 1998ءمیں ادا کیا گیا تھا۔ اس وقت جب نریندر مودی جیسا شخص جس کے ہاتھ ہزاروں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں‘ لوک سبھا الیکشن جیتا تو اسے اگلے لمحہ میں ہی مبارکباداور پھر پاکستان آنے کے بھی دعوت دے دی گئی جبکہ نریندر مودی نے جو ٹویٹر پر بہت سرگرم رہے اور ٹویٹ کر کے مبارکباد یں دینے والے دنیا بھر کے سربراہان کا شکریہ ادا کرتے رہے‘ وزیر اعظم نواز شریف کی مبارکباد کا جواب تک دینا گوارا نہیں کیااور چند دن بعد اپنی حلف برداری کی تقریب میں نوازشریف کو شرکت کی دعوت دے ڈالی۔ موجودہ حکمرانوںکی طرف سے نومنتخب بی جے پی حکومت اور نریندر مودی سے دوستی کیلئے اختیار کیا گیاعجلت کا یہ انداز پاکستان کے غیور عوام کو پسند نہیں آیا۔ بھارت کے نومنتخب وزیر اعظم مودی کی طرف سے جو انداز اختیار کیاجارہا ہے وہ پاکستان سے زیادہ خود بھارت کیلئے خطرناک ہے۔ایٹمی پاکستا ن کو تو وہ ان شاءللہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گامگر ان کی پالیسیوں سے بھارت کے تیس کروڑ مسلمان متحد ہو رہے ہیں اور انکے دل و دماغ میں ایک بار پھردوقومی نظریہ بیدار ہورہا ہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ حکمران، سیاستدان اور عوام ملک و ملت کے دفاع کیلئے ایک ہوجائیں۔
یوم تکبیر .....جب بھارت کا غرور خاک میں مل گیا
May 28, 2014