ایٹمی پاکستان عالم اسلام کا احساس تفاخر

 پاکستان کی 67سالہ تاریخ میں عروج و زوال کی کئی داستانیں رقم  ہیں۔  اقوام کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب یہ قومیں ماضی کی گرد میں کھوکر قصہ پارینہ  بن جاتی ہیںمگرجو قومیں اپنے عروج  و زوال  میں اپنی خوبیوں  خامیوں  کا ادراک کر کے آگے بڑھتی ہیں وہ   اپنی منزل مقصود تک ضرور پہنچتی ہیں ۔    آج سے چالیس برس قبل جب  1974؁ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کرکے خطے میں ایٹمی ہتھیاروں  اور دیگر اسلحے کی دوڑ کاآغاز کیا  تو اس کے جواب میں پاکستان نے اس وقت کے  وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ملکی دفاع کو مضبوط  بنانے کے لئے اسے ایٹمی طاقت بنانے کے کام کا آغاز کر دیا۔ اس وقت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو 1975ء میں دوسرے ملک سے بلوایا گیا ۔  جن کی سربراہی میں پاکستان میں 1976ء میں ایٹمی ری ایکٹر کی ابتدا  ہوئیاور فرانس کے ساتھ ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کا معاہدہ طے پایا۔ مئی 1998؁ء میں بھارت نے  جب ایک بار پھر ایٹمی دھماکے کر کے اسے دھمکی  کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی  تو  پاکستان  نے اس کے جواب میں 28مئی 1998؁ء کو اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں پانچ دھماکے کرکے بھارتی برتری کا  خواب چکنا چور کر دیا۔ پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کی یاد میں آج قوم ایٹمی دھماکوں کی 16سالگرہ منا رہی ہے۔ ہر سال 28مئی کا دن وطن عزیز میں یوم تشکر اور یوم تکبیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جب ایٹمی دھماکے کرکے  پاکستان دُنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بن گیا۔
ایٹمی پاکستان، عالم اسلام کا احساس تفاخر سمجھا جاتا  ہے ۔پاکستان دنیا کے نقشے پر 14اگست 1947ء کو معرض وجو دمیں آیا جب برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان، مال اور عزت کی قربانی دے کر ایک آزاد ملک حاصل کیا۔پاکستان اپنے دشمن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا  رہاہے۔  بھارت نے 1950ء کی دہائی کے چند ابتدائی سالوں میں ایٹمی ری ایکٹر کی ابتدا کی تو پورے جنوبی ایشیا میں  طاقت کا توازن بگڑ کر رہ گیا تھا ۔  یہ پہلا موقع تھاجب پاکستان نے 1970ء کی دہائی میں فرانس سے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے ایک معاہدہ کیا تو امریکہ  اس کا سب سے بڑا مخالف بن کر سامنے آن کھڑا ہوا۔ امریکہ نے اپنے اس وقت کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجری کو پاکستان بھیجا۔ جس نے اس وقت  کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے جب لاہور میں ملاقات کی ۔اس دوران ہنری کسنجر نے دبے لفظوں میں دھمکی دیتے ہوئے پاکستان سے فرانس کیساتھ معاہدہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ۔یہی وہ لمحہ تھا جب ذوالفقار علی بھٹو نے انکار کردیا تو ہنری کسنجر نے   جاتے وقت کہا کہ ’’ مسٹر بھٹو! ہم تمہیں تاریخ کی ایک عبرتناک مثال بنادیں گے‘‘۔ پھر وہی ہوا مسٹر بھٹو کو ضیاء الحق کے ذریعے تختہ دار پر لٹکا دیا گیااور پاکستان کے عوام بے بسی کی تصویر بنے سارا منظر دیکھتے رہے۔
جب بھارت نے اپنے ملک میں پہلے ایٹمی دھماکے کئے تو اس وقت پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جرات واستقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نعرہ مستانہ بلندکیا وہ نعرہ یہ تھا کہ ’’ پاکستانی قوم گھاس کھا کر اپنی زندگی بسر کرلے گی لیکن بھارت کے جواب میں ایٹمی طاقت ضرور حاصل کرے گی۔ پاکستان 1986/87ء میں ایٹمی دھماکہ کرنے کی صلاحیت  حاصل کرچکا تھا مگر اس کے عزائم جارحانہ نہ تھے۔ بھارت نے 12 اور 13 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کر تے ہوئے طاقت کے نشے میں بد مست ہاتھی کی طرح پاکستان کیلئے  جوابی ایٹمی دھماکوں کیلئے خود جواز مہیا کر دیا تھا۔ میاں نواز شریف جو کہ اس وقت وزیراعظم تھے انہوں نے صلاح مشورے کئے، پاکستان کے سیاسی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا  اور فیصلہ کر کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل  دے دی گئی۔  مختلف حربوں سے میاں نواز شریف کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے کا کہاگیا، امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن نے ٹیلی فون کے ذریعے میاں نواز شریف کو دھماکہ نہ کرنے کی تجویز دی اور ساتھ ہی یہ بھی پیشکش کی کہ اگر وہ ایٹمی دھماکہ نہ کریں تو ان کے ذاتی اکاؤنٹ میں کروڑوں ڈالر جمع کروا دئیے جائے جائیں گے۔  ملک و قوم کے وقار  اور کڑی آزمائش کے اس مرحلے پر میاں نواز شریف نے ہر طرح کے دباؤ کو پس پشت ڈالتے ہوئے  ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور پاکستان نے ڈاکٹر قدیر خان کی سربراہی میں 28 مئی 1998ء دن 3 بجکر 16منٹ پر چاغی بلوچستان کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکے کر ڈالے۔ اگر اس وقت بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے نہ کئے جاتے تو بھارت کب کا پاکستان  کو زیر کر چکا ہوتا۔ سورۃ الانفال کی آیت نمبر 60 میں ارشاد ربانی ہے‘‘ اور ان کے مقابلے میں جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت جمع کرو اور  بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو تاکہ تم اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے اپنے اور جو ان کے علاوہ دشمن ہیں ان کوخوف زدہ کرسکو۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...