لاہور (خبرنگار+ خصوصی نامہ نگار+ کامرس رپورٹر+ ایجنسیاں) پنجاب اسمبلی نے تیزاب پھینکنے کے واقعات کا انسداد دہشتگردی عدالت میں انسداد دہشتگردی قوانین کے تحت ٹرائل، بچوں پر جنسی تشدد اور قتل کے واقعات میں ملوث مجرموں کو سزائوں پر عملدرآمد، خواتین کے حقوق کے متعلق اور پی ٹی وی کے فنکاروں کے معاوضوں میں اضافے سمیت مفاد عامہ کی 5 قراردادیں منظور کر لیں جبکہ اپوزیشن کی دو قراردادیں کارروائی میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے نمٹا دی گئیں، اپوزیشن نے ترقیاتی فنڈز نہ ملنے پر سپیکر چیئر کا گھیرائو اور دھرنا دے کر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایوان کو بتایا گیا کہ پنجاب یونیورسٹی کا بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں رینکنگ کے لحاظ سے 1613واں نمبر ہے جبکہ ایشیائی یونیورسٹیوں میں اس کا 201-250 (رینج) میں درجہ بندی ہے جس پر اپوزیشن بنچوں نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔ ایک گھنٹہ 20منٹ کی تاخیر سے سپیکر رانا محمد اقبال کی صدارت میں شروع ہوا ۔ اجلاس کے آغاز پر ہی اپوزیشن نے صوبائی وزیر قانون کی طرف سے سوموار کے روز انکی ایوان میں عدم موجودگی پر وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کے حوالے سے دئیے جانیوالے بیان پر شدید احتجاج اور مذمت کی۔ اس موقع پر اپوزیشن نے اعلان کیا کہ اگر انکے حلقوں میں ترقیاتی کام نہ ہوئے تو آئندہ مالی سال کیلئے بجٹ سیشن نہیں چلنے دینگے۔ سپیکر نے کہا کہ وقفہ سوالات شروع ہونے دیں اس میں آپ لوگوں کے ہی سوال ہیں جس پر میاں اسلم اقبال نے کہا کہ اس فورم کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ا س میں ہمارا کوئی سوال نہیں آتا بلکہ مرضی کے سوال شامل کئے جاتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے کہا کہ رانا ثناء اللہ نے ہماری عدم موجودگی میں وزیر اعلیٰ سے ملاقات کے لئے وقت لے کر دینے کی جو بات کی ہے وہ غلط ہے، اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ اربوں کھربوں اپنے گلی کوچوںمیں تو خرچ کر رہے ہیں لیکن اپوزیشن سے امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ میاں اسلم اقبال نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اب نصیبو لعل لیگ ہو گئی ہے جس پر سپیکر پنجاب اسمبلی نے یہ الفاظ کارروائی سے حذف کرا دئیے۔ مسلم لیگ ن کو ’’نصیبو لعل لیگ‘‘ کہنے پر حکومتی خواتین ارکان نے شدید احتجاج کیا اور شیم شیم کے نعرے لگائے۔ سردار شہاب الدین نے بھی رانا ثناء اللہ کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ اپوزیشن کودیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ کیا ہمارے حلقوں کے عوام حکومت کو ٹیکس نہیں دیتے۔ صوبائی وزیر خلیل طاہر سندھو نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزیر قانون رانا ثناء اللہ ایوان میں موجود نہیں اور اپوزیشن حکومت کو لتاڑنے میں مصروف ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری محکمہ ہائر ایجوکیشن مہوش سلطانہ نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے بتایا کہ سال 2012ء میںپنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے 1200لیکچرارز بھرتی کئے گئے تھے جبکہ امسال 4500اساتذہ کی بھرتی کے لئے درخواست ارسال کر رہے ہیں ۔ وقفہ سوالات کے دوران ہی تحریک انصاف کے صلاح الدین نیازی نے کورم کی نشاندہی کر دی اور تعداد پوری نہ ہونے پر پانچ منٹ کے لئے گھنٹیاں بجائیں گئیں اور مطلوبہ تعداد پوری ہونے پر دوبارہ وقفہ سوالات کا آغاز کردیا گیا ۔ پارلیمانی سیکرٹری نے ایوان کو بتایا کہ کسی بھی نئے کالج کی تعمیر کے لئے پہلے سے موجود لڑکوں کے کالج سے دس کلو میٹر اور لڑکیوں کے لئے پانچ کلو میٹر فاصلہ ہونا چاہیے۔ وقفہ سوالات کا اختتام ہونے پر اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے کہا کہ ڈسٹر کٹ کوارڈی نیشن کمیٹیوں میں اپوزیشن ارکان کو شامل نہ کرنے پر متحدہ اپوزیشن کی تحریک استحقاق تین مہینے سے کمیٹی کے پاس ہے کیا اسے واپس آنے میں تین سال لگیں گے جب تک ہماری تحریک کا فیصلہ نہیں ہوتا ہم احتجاج جاری رکھیں گے اور تمام اپوزیشن ارکان سپیکر چیئرکے سامنے جمع ہوگئے اور نعرے بازی شروع کردی ۔ اپوزیشن ارکان ظالمو جواب دو ظلم کا حساب دو، گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو ،ظلم کے ضابطے ہم نہیںمانتے، سپیکر کے پیاروںکو ایک دھکا اور دو، لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی، گو سپیکر گو، عوام کا دا حق ایتھے رکھ، جعلی کارروائی بند کرو، نواز ‘شہباز حکومت ٹھاہ کے نعرے لگاتے اورایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ایوان میں اچھالتے رہے ۔اس موقع پر حکومتی بنچوں سے یہودی لابی نامنظور، نامنظور اور اپنی قیادت کے حق میں نعرے لگائے جاتے رہے۔