احمد کمال نظامی
ہم ہر سال بجٹ پیش کرتے ہیں اور پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سرفہرست ہے جو بجٹ پیش کرنے کے بعد بھی بجٹ سے جو سلوک کرتی ہیں اور چاہتی ہیں بلاکسی خوف عوام پر ڈالتی ہیں اور بجٹ سے قبل اسحاق ڈار جب وزیرخزانہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے جو بیانات داغتے ہیں جب بجٹ پیش ہوتا ہے وہ الفاظ کا ایسا گورکھ دھندا ہوتا ہے جو عوام کی عقل سے بہت بالا ہوتا ہے۔ جس طرح قدرتی آفات سیلاب زلزلے آندھی خوفان زندگی کا لازمہ ہوتے ہیں ایسے ہی ہر بجٹ مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن کی نئی سے نئی راہیں دکھاتا ہے۔ آج کوئی بجٹ ایسا نہیں پیش ہوا جس نے عوام کے تحفظات کی پرواہ کی ہو، جسے غریب کا بجٹ کہا جا سکے جبکہ اسحاق ڈار جیسے وزیرخزانہ کی موجودگی میں یہ تصور بھی احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف ہے۔ ایسے ہی تمام تر عوام دوستی اور اسلام دوستی کے دعوؤں اور حکومتی اعلانات کے باوجود ہر رمضان شریف میں مہنگائی کی ایک نئی لہر پیدا ہوتی ہے جیسے ہر عیدقربان کے بعد گوشت کی قیمت میں اضافہ ناگزیر ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاںمحمد شہبازشریف نے رمضان المبارک سے قبل ہی بڑا خوش کن اور بظاہر غریب پرور رمضان پیکج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت پنجاب بھر کے تاجر شہروں میں سستے رمضان بازاروں کا قیام بھی ہے اور اعلان کیا ہے کہ ذخیرہ اندوزوں اور چور بازاری کرنے والوں کا مقام جیل کی دیواروں کے پیچھے ہو گا لیکن ابھی رمضان شریف کی آمد میں ڈیڑھ عشرہ باقی ہے۔ آٹھ بازاروں کے شہر فیصل آباد سمیت ملک بھر کے تاجروں اور ہول سیلرز نے اپنے اپنے منافع کماؤ پیکج پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ موسم گرما کے حوالہ سے ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں کہ آم کی طرح آلوبخارہ بھی موسم گرما میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے اور آلوبخارہ کی فصل مکمل طور پر تیار ہونے کے باوجود منڈی میں اس لئے نہیں لائی جا رہی تاکہ رمضان شریف میں اپنی من پسند قیمت پر فروخت کر سکیں۔ یہ ذہنیت یہودوانصار کی ہے اور ہمارے تاجر اس پر فخر ہی نہیں کرتے بلکہ اسے تجارتی راز اور تجارتی اصول قرار دیتے ہیں۔ اخبارات میں جہاں تباہ کن لوڈشیڈنگ کی خبریں شہ سرخیوں سے شائع ہو رہی ہیں وہیں اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کی خبریں شائع ہو رہی ہیں۔ دالیں ہوں، سبزیاں ہوں یا موسمی پھل ہوں حتیٰ کہ کھجور جیسی چیز جس سے افطار کرنا سنت ہے اس کی قیمت بھی چند روز میں آسمان سے باتیں کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ ہمارے تاجروں کا یہ طریقہ واردات ہے جیسے یارن مارکیٹ کے تاجر جب وقت نماز جامع مسجد کلاں میں جمع ہوئے ہیں اور جب مسجد سے تاجر نکلتے ہیں تو یارن کا نیا ریٹ طے ہو چکا ہوتا ہے یعنی سٹہ کا ریٹ یارن مارکیٹ کی تیزی اور منڈی کی خبر دیتا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہمارے تاجر اشیاء کی قیمتوں میں جو اضافہ کر دیتے ہیں کبھی حکمرانوں نے اس منافع خوری پیکج کا نوٹس لیا کہ رمضان شریف کی آمد سے اک قبل وہ کون سی ناگہانی آفت ٹوٹ پڑی اور کون سا قحط پیدا ہو گیا کہ ایک ہی دن میں اشیاء ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنی لگیں۔ اس کے پس پردہ تاجر ذہنیت یہ ہوتی ہے کہ رمضان شریف میں مہنگی اشیاء خریدتے وقت انہیں احساس نہ ہو کہ یہ اب مہنگی ہوئی ہیں۔ یہی تاجرانہ ذہنیت ہے اور ماشاء اللہ ہمارے حکمرانوں کی ذہنیت اور تاجرانہ ذہنیت میں کوئی فرق نہیں بلکہ تاجروں کی اس لوٹ مار کو وہ سیزن قرار دے کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ 342ارکان اسمبلی میں سے کسی ایک کا نام تو بتائیں جس نے عوامی نمائندگی کا حق ادا کیا ہو لیکن ان کے بیانات میں جو نعرہ اور فقرے سنائی دیتے ہیں عوام اس پر صدقے اور واری جاتے ہیں لیکن جب پول کھلتا ہے تو ماسوائے شرمندگی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ رمضان شریف ہمارے ہاں بدقسمتی سے سیزن قرار دیا جاتا ہے اور وہ کون سی چیز ہے جس کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوتا اور کبھی کسی نے اس پہلو پر غور کیا ہے کہ عوام کے ذرائع آمدن تو وہی رہتے ہیں جب سوچ اور فکر ہی لوٹ پڑی سو لوٹولوٹ جو نہ لوٹے اوت کا پوت والی ہو تو پھر اشیاء کی قیمتیں کیسے اعتدال پر رہ سکتی ہیں اور چوہدراہٹ بھی اسی کی لہو جو خود ذخیرہ اندوزی، جعل سازی، ملاوٹ اور منافع خوری کو اپنا فرض اولین قرار دیتے ہوں۔ فیصل آباد میں ملاوٹ کرنے والی فوڈ کی تین فیکٹریوں پر چھاپہ مارا گیا اور ان فیکٹریوں میں تیار ہونے والی کیچپ اور دیگر غذائی اشیاء بڑی مقدار میں پکڑی گئیں اور اس سے ہزار گنا زیادہ کی مقدار میں تیار ہو کر مارکیٹ میں پہنچ چکی تھیں اور ہول سیلرز ڈیلروں نے انہیں پرچون فروشوں کے ہاتھ رمضان پیکج کے نام پر فروخت بھی کر دیا تھا۔ ہوتا یوں ہے کہ ہم نمبر اسکور کرنے کی غرض سے گلی محلوں میں قائم پرچون کی چھوٹی چھوٹی دکانوں کو اپنا ٹارگٹ بناتے ہیں اور بڑے فخریہ انداز میں ایک سرکاری پریس ریلیز جاری ہوتا ہے کہ اتنے افراد چور بازاری میں پکڑے گئے ارے بابا یہ تو بتاؤ کہ لوگوں کو تو پکڑ لیا مگرمچھوں کی طرف تمہارے ہاتھ جاتے تو لرزتے ہیں اس لئے کہ منتھلی نے تمہارے ہاتھوں پر ہتھکڑی لگائی ہوتی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف نے جو رمضان پیکج دیا ہے اگر اس رمضان پیکج کی روح کو سامنے رکھتے ہوئے ڈی سی او نورالامین مینگل اور ڈویژنل کمشنر عملدرآمد کرائیں اور اپنے ماتحتوں پر عقابی نظریں رکھیں تو عوام کو واقعی ریلیف مل سکتا ہے ورنہ ہم تو یہی کہیں گے کہ رمضان سیزن میں کوئی تاجر اوت کا پوت بننے کو تیار نہیں وہ عوام کو کیوں نہ اوت قرار دیتے ہوئے لوٹ ہی ان کا حق ہے۔