راؤ شمیم اصغر- ملتان
صوبائی حکومت کو احساس محرومی کے خاتمے کیلئے کچھ اور بھی کرنا ہو گا
گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ ملتان کے پانچ روزہ دورہ کے بعد گزشتہ شام واپس لاہور روانہ ہو گئے۔ وہ 23 مئی کو ملتان آئے تھے اور پروگرام کے مطابق 26 مئی کو واپس لاہور جانا تھا لیکن انہوں نے اپنے قیام میں تقریباًڈیڑھ دن کی توسیع کی۔ قبل ازیں بحیثیت سینیٹر وہ پارلیمنٹ کے نمائندے ضرور تھے اور عوام کا براہ راست منتخب نمائندہ نہ ہونے کے باوجود اہلیان ملتان نے ان کے ساتھ جس گرمجوشی کے ساتھ محبت کا اظہارکیا ہے وہ منتخب عوامی نمائندے سے بھی بڑھ کر رہا۔ ان کے قیام کے دوران سرکٹ ہاؤس کے دروازے ہر ملاقاتی کیلئے کھلے رہے۔ ان ملاقاتیوں میں بیشتر تعداد وہ تھی جو محض مبارکباد دینے کیلئے آئی۔ لوگ اپنے مسائل کے حل کیلئے بھی گئے لیکن ان پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈالا جو ان کے بس سے باہر ہو۔ گورنری کا عہدہ اس خطے کیلئے نیا نہیں ۔ مخدوم سجاد حسین قریشی مرحوم طویل عرصہ تک اس عہدے پر فائز رہے۔ سردار لطیف کھوسہ کو بھی کچھ عرصہ موقع ملا۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ملتان سے مخدوم سجاد حسین قریشی مرحوم کے کزن نواب ریاض حسین قریشی بھی گورنر پنجاب رہے۔ ملک غلام مصطفی کھر کا تعلق اگرچہ ضلع مظفر گڑھ سے تھا لیکن ان کا زیادہ تر قیام ملتان میں ہی رہتا تھا۔ سردار ذوالفقار کھوسہ کا تعلق ڈیرہ غازیخان سے تھا لیکن ملتان کے راستے ہی آنا جانا ہوتا تھا۔ ان تمام گورنروں کا عوام سے رابطہ تھا لیکن ملک غلام مصطفی کھر کے بعد ملک رفیق رجوانہ وہ پہلی شخصیت ہیں جو ہمہ وقت عوام میں گھر ے رہے ہیں۔ وہ ایک ایسے وقت میں گورنر بنے جب چودھری سرور اس منصب جلیلہ کو ٹھوکر مار کر گورنر ہاؤس سے چلے گئے اور اسی تلخ تجربہ کے بعد مسلم لیگ ن کو نئے گورنر کے انتخاب میں کافی وقت لگا۔ رحیم یار خان سے جعفر اقبال ‘ بہاولپور سے سعود مجید‘ ملتان سے ملک رفیق رجوانہ کے نام سامنے آتے رہے۔ ایک خاتون کو گورنر پنجاب بنانے کی افواہیں بھی چلتی رہیں لیکن اچانک ملک رفیق رجوانہ پر اتفاق کرلیا گیا اور ان کی خالی کردہ سینیٹر کی نشست پر بہاولپور کے سعود مجید کو منتخب کرا لیا گیا۔ اس طرح سینیٹر کی نشست بھی جنوبی پنجاب میں رہ گئی اور اس خطے کو گورنری بھی مل گئی۔ ملک رفیق رجوانہ کے گورنر بننے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے خاص طور پر اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ چودھری سرور جیسے معاملات سے دوبارہ واسطہ نہ پڑے۔ انہوں نے ملک رفیق رجوانہ کی گورنر بننے کے بعد ملتان پہلی مرتبہ آمد سے قبل ایک ملاقات کی۔ اس ملاقات میں ورکنگ ریلیشن شپ برقرار رکھنے اور کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کیلئے ایک لائحہ عمل طے کیا۔ سید یوسف رضا گیلانی جب وزیراعلیٰ بنے تھے تو انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف سے طے کر لیا تھا کہ انہیں ملتان سونپ دیا جائے۔ پھر ایسا ہی ہوتا رہا کہ میاں شہبازشریف ملتان سے دور دور ہی رہے۔ اب 2013 ء کے بعد اگرچہ ایسا معاہدہ کسی کے ساتھ نہیں تھا لیکن اہلیان ملتان کی بدقسمتی رہی کہ میاں شہبازشریف ملتان سے دورہی رہے۔ اب ملک رفیق رجوانہ آئے تو وزیراعلیٰ کے ساتھ ملاقات میں یہ انتہائی اہم نکتہ بھی طے پا گیا کہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کا ایک ڈپٹی سیکرٹری گورنر پنجاب کی جانب سے بھیجے گئے امور کو نمٹانے کیلئے مختص رہے گا۔ یہ ڈپٹی سیکرٹری اگرچہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں ہی بیٹھے گا لیکن اس کی ذمہ داری صرف گورنر پنجاب کی جانب سے بھیجی گئی سمریوں اور دیگر معاملات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ہو گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے ڈپٹی سیکرٹری بھی تعینات کر دیا ہے۔ ملک رفیق رجوانہ ملتان آئے تو ان کے پاس یہ اعتماد بھی موجود تھا کہ وہ پنجاب حکومت کو کوئی مسئلہ بھجوائیں گے تو وہ لٹکا نہیں رہے گا۔ بلکہ اس مسئلے کو حل کرانے کیلئے ڈپٹی سیکرٹری کی صورت میں رابطہ موجود رہے گا۔ ملک رفیق رجوانہ نے ملتان آنے سے قبل کسی وفد سے ملاقات میں یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ چار صوبائی سیکرٹریوں کو ملتان میں بٹھانے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ قبل ازیں جنوبی پنجاب کے مسائل حل کرنے اور اس خطے کے عوام کو چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے لاہور جانے سے بچانے کیلئے کوششوں کا آغاز ہو ا تھا۔ اس سلسلے میں پنجاب کا دوسرا سیکرٹریٹ بنانے اور یہاں کچھ سیکرٹریوں اور ڈپٹی سیکرٹریوں کو تعینات کرنے پر کافی حد تک پیشرفت بھی ہوئی تھی۔ ملتان سیکرٹریٹ میں تعینات سیکرٹریوں کو سپیشل سیکرٹری قرار دینے کی تجویز چل رہی تھی کہ معاملہ ٹھپ ہو گیا۔ جو کمیٹی اس منصوبے پر کام کر رہی تھی اس کے سربراہ بھی ملک رفیق رجوانہ ہی تھے۔ انہیں اس معاملے کی نزاکتوں اور مسائل کا بخوبی علم ہے۔ اگر وہ طے شدہ امور پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو جس طرح وزیراعلیٰ پنجاب اور گورنر پنجاب کے مابین ایک چین بن گئی ہے۔ ملتان میں لاہور سیکرٹریٹ کی شاخ بن جانے سے اس خطے کے عوام کو بے حد فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
گورنر پنجاب ملتان پہنچے تو انہوں نے ہائی کورٹ بار ملتان بنچ سے بھی خطاب کیا۔ یہ تقریب اس لحاظ سے بڑی منفرد تھی کہ اس میں پورے جنوبی پنجاب کی بارز کے نمائندوں نے شرکت کی اور گورنر پنجاب اس تقریب میں شرکت کر کے بے حد خوشی محسوس کررہے تھے کیونکہ اس بار سے اٹھ کر وہ گورنر ہاؤس تک پہنچے تھے اور اس کا اظہار کئے بغیر بھی وہ نہ رہ سکے اور شرکاء تقریب کو انہوں نے اپنے خطاب کے دوران بتایا کہ وہ گورنر ہاؤس کی چار دیواری میں ایک دن ان کا دل گھبرایا تو وہ کسی پروٹوکول کے بغیر لاہور ہائی کورٹ بار جا پہنچے تھے اور دوستوں سے گپ شپ کرکے خوشی محسوس کی تھی۔ ہائی کورٹ بارملتان بنچ کے صدر محمد علی گیلانی نے ان سے پانچ کروڑ روپے گرانٹ مانگی تو گورنر پنجاب نے کہا کہ صدر بار نے ان سے توپ کے گولے کا لائسنس مانگا ہے وہ انہیں فی الحال بندوق کی گولی کا لائسنس یعنی 30 لاکھ روپے کا چیک پیش کرتے ہیں۔ اسی روز ڈسکہ کا سانحہ رونما ہوا اور وزیراعلیٰ پنجاب نے لاہور بار کے وکلاء سے ملاقات کر کے پانچ کروڑ کا چیک پیش کیا۔ گورنر اور وزیراعلیٰ کے اختیارات میں یہ فرق محسوس کیا گیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس خطے کے عوام کے احساس محرومی کو ختم کرنا چاہتی ہیں تو 5 کروڑ اور 30 لاکھ میں فرق کو بھی کم کرنا ہو گا صرف ایک ڈپٹی سیکرٹری کی تعیناتی سے آگے بڑھ کر اقدامات کرنا ہونگے۔