”یوم تکبیر“ نواز شریف کا جذبہ جنون

قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جب ایک صحیح فیصلہ اس کی تقدیر بدل کر رکھ دیتا ہے۔ ایسا ہی وقت پاکستان کی تاریخ میں بھی 28 مئی 1998ءکو آیا جب ایک صحیح اور بروقت فیصلہ نے ایک ایسا معجزہ کردکھایا کہ دنیا حیران و ششدر رہ گئی۔پاکستان کی تاریخ میں دو بڑے معجزے ہوئے ہیں۔ پہلا معجزہ قیام پاکستان کا ہے کہ کس طرح ایک منتشر قوم جو مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی تھی وہ ہندو اور انگریزوں کی متحدہ مخالفانہ قوت کے باوجود قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک آزاد اور خود مختار اسلامی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی اور دوسرا معجزہ 1998 ءمیں ہوا ہر سال 28مئی کو چاغی میں کیے گئے ایٹمی دھماکوں کی یاد میں ملک بھر میں ”یوم تکبیر“ منایا جاتا ہے اور تقریبات، جلسوں اور جلوسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے یہ ایٹمی دھماکے اس وقت کیے جب اٹل بہاری واجپائی نے اپنی انتخابی مہم میں برملا اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ برسر اقتدار آنے کے بعد اکھنڈ بھارت بنانے کے لئے ہر حربہ اختیار کرینگے اور ایٹم بم گرانے پڑا تو بھی گریز نہیں کرینگے۔واجپائی نے برسر اقتدار آنے کے بعد اپنے جارحانہ عزائم کا بھرپور طریقے سے اظہار کیا اور 11مئی 1998 کو تین اور 13 مئی کو مزید دو دھماکے کرکے پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ بھارت اپنے جارحانہ عزائم کو کسی بھی وقت عملی جامہ پہنا سکتا ہے۔ اٹل بہاری واجپائی کی یہ جارحیت پاکستان کی سالمیت کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرچکی تھی۔ پوری قوم کی یہ تمنا تھی کہ بھارتی جارحیت کا بھرپور طریقے سے جواب دیا جائے۔ چنانچہ پاکستانی سائنسدانوں نے عسکری اور سیاسی قیادت کے فیصلے پر چاغی کے مقام پر 28 مئی 1998 کو پانچ اور 30 مئی کو کھاران میں ایک وسیع صحرائی وادی میں چھٹا ایٹمی دھماکا کرکے بھارت کی جارحیت کا بھرپور انداز میں جواب دیا۔ مشہور عالمی جریدے نیوز ویک نے اپنے 16 جون 1975ءکے شمارے میں امریکی کانگریس کے ارکان کے حوالے سے یہ خبر شائع کی تھی کہ پاکستان فرانس سے ایٹمی مشینری خریدنے کا معاہدہ کرنے والا ہے۔ بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد ملک کے بعض سائنسدانوں کو بلا کر انہوں نے بھارتی سائنسدانوں کے آگے نکل جانے کا احساس دلایا۔ اس وقت ایٹمی توانائی کمشن کے سربراہ خود بھٹو تھے۔ اس کا چارج انہوں نے 31 دسمبر 1971ءکو خود سنبھالا تھا۔ فرانس سے ری پراسیسنگ پلانٹ کی خرید کے معاہدے کی تمام شرائط کو تسلیم کرنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ 300 ملین ڈالر کے اس منصوبے کےلئے سرمائے کا حصول تھا۔ لیبیا‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ کویت اور عراق کی طرف سے بھرپور مالی تعاون کی پیشکش پر انہوں نے غلام اسحاق خان، آغا شاہی، عزیز احمد، اے جی این قاضی اور منیر احمد کو خصوصی مشن پر ان ممالک میں بھیجا۔یہ 28 مئی 1998ءکا مبارک دن تھا کہ پاکستان ایٹمی قوت بن گیا مگر پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کےلئے جن عناصر نے حب الوطنی اور اسلام پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے تاریخی کردار ادا کیا‘ ان میں روزنامہ نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی مرحوم سرفہرست ہیں اور یہ بات تاریخی شواہد کی بنیاد پر واشگاف الفاظ میں کہی جاسکتی ہے کہ اگر جناب مجید نظامی اس معاملے میں حکومت وقت سے قومی سربلندی کی خاطر ٹکرا جانے والی پالیسی پر ثابت قدمی سے عمل پیرا ہونے کی تلقین نہ کرتے تو عین ممکن تھا کہ بعض بڑے بڑے حاشیہ نشین اور چاپلوس صحافیوں کی ایک کھیپ مخصوص مفادات کے تحت پاکستان کی ذمہ دار قیادت کو ایٹمی دھماکے کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی مگر یہ مجید نظامی صاحب ہی تھے کہ جنہوں نے اس حوالے سے نوائے وقت کی جاری کردہ استحکام پاکستان تحریک کو نقطہ¿ عروج تک پہنچا دیا۔21 مئی 1998ءکو وزیراعظم میاں نواز شریف نے وزیراعظم ہاﺅس اسلام آباد میں مدیران اخبارات و جرائد سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں وزیراعظم اور قومی اخبارات کے ایڈیٹروں کے مابین بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکہ کرنے کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ¿ خیال ہوا۔ دوران گفتگو دھماکہ کرنے کی صورت میں تمام ممکنہ پابندیوں اور ان کے نتیجے میں ملک کے غریب عوام کی اقتصادی مشکلات میں مزید اضافے کے حوالے سے بھی بحث و تمحیص ہوئی بعض دانشور مدیران جرائد نے دبے لفظوں میں ایٹمی دھماکے کرنے کی مخالفت کی۔ ایسے ماحول میں واحد آواز نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی کی تھی جنہوں نے بڑی جرا¿ت کے ساتھ وزیراعظم کے سامنے قومی امنگوں کی ترجمانی کی۔ انہوں نے صاف صاف لفظوں میں وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب! آپ ایٹمی دھماکہ کرو ادیںورنہ عوام آپ کا دھماکہ کر دیں گے۔ جناب مجید نظامی نے یہ بھی کہا کہ آپ ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں آپ کو دوہری وارننگ کا سامنا ہے۔ اگر دھماکہ کرتے ہیں تو ممکن ہے امریکہ آپ کا دھماکہ کر دے مگر قومی اور ملکی سالمیت اس امر کی متقاضی ہے کہ آپ ایٹمی دھماکہ کریں۔ اس کے بعد جناب مجید نظامی نے 22 مئی 1998ءمیں اپنے اداریہ میں لکھا کہ ”پاکستان کی گومگو پالیسی کی وجہ سے بھارت اور مغربی دنیا کو اس وقت تک ہماری صلاحیت کے بارے میں یقین نہیں آسکتا جب تک تجربہ کر کے ہم بتا نہیں دیتے کہ ہماری ایٹمی صلاحیت بھارت سے کس قدر زیادہ اور ترقی یافتہ ہے امریکہ نے وزیراعظم نواز شریف کو ایٹمی دھماکے کرنے سے روکنے کےلئے اپنی کوششیں آخری وقت تک جاری رکھیں مگر وزیراعظم نواز شریف نے ملکی سلامتی اور قومی خودمختاری پر کسی قسم کی سودے بازی سے صاف انکار کر دیا۔ میاں نواز شریف کی بے باکی‘ جرا¿ت اور ثابت قدمی ہماری قومی تاریخ کا انمٹ باب ہے۔

ای پیپر دی نیشن