کسی بھی معاشرے سے دفاع، صحت اور تعلیم کے پہلوؤں کو نکال دیا جائے تومعاشرے کی حالت اس تن مردہ کی سی ہوجاتی ہے کہ جیسے جسم سے روح نکال لی جائے۔ 28 مئی 1998ء کو مسلسل پانچ ایٹمی دھماکے اس بات کا بین ثبوت ہے کہ پاکستان نہ صرف دفاعی لحاظ سے مضبوط ہے بلکہ دشمن کے ہر وار کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور طاقت رکھتا ہے۔ بھارت کے خطرناک عزائم کو ایٹمی دھماکے کرکے نہ صرف للکارا گیا بلکہ ایٹمی قوت رکھنے والا دنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ملک بن گیا۔ بھارت نے اپنے مقاصد میں کامیابی کے لئے ہمیشہ زہریلے ہتھکنڈے استعمال کئے جن کو Hegemonic designs کہا جاتا ہے۔ ان عزائم کا مقصد پاکستان پر عسکری لحاظ سے دباؤ ڈالا جائے۔ ایک بھارتی تجزیہ نگار نے تو یہاں تک لکھا کہ پاکستان کی مسلح افواج ضرورت سے زیادہ بڑی ہے۔ جو بھارت کے لئے خطرے کا باعث ہے اسی خطرے کے ازالے کے لئے بھارت نے 11مئی 1998ء کو نہ صرف دھماکے کرڈالے بلکہ پاکستان کے لئے ان کا رویہ بھی تضحیک آمیز ہوگیا۔ کسی بھی ریاست کی طرف سے جب دفاعی برتری کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دیگر ریاستوں پر بالادستی کی جائے۔ اس مقصد کے لئے ریاستیں اپنی قوت اور ذرائع سے فیصلہ کرتی ہیں تاکہ دوسری ریاستیں جھک جائیں صرف پاکستان اس خطے کا واحد ملک ہے جو بھارتی روئیے کے سامنے نہیں جھکا لہٰذا ایک طرف تو پاکستان اور بھارت کے درمیان قیام پاکستان سے لے کر اب تک کشمکش جاری ہے۔ دوسرے یہ کہ بھارتی حکومت کی طرف سے تین دھماکے بھی اسی کا شاخسانہ تھے۔ بھارتی مفکرکا بیان قابل غور ہے کہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان بھارت کے لئے خطرہ نہیں بلکہ اسے خطرہ بناکر پیش کیا جاتا ہے بلکہ اس پر عسکری برتری مسلط کرنے کی بھی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے۔ ہم نے جس شدومد کے ساتھ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا جواب دیا اور ایک مرتبہ بھارت کے ارادوں کو متزلزل کرکے رکھ دیا۔فتح مکہ کے موقع پر حضرت عباس ابوسفیان کو ایک پہاڑی کے اوپر لے گئے ۔ پہاڑی کے نیچے مسلمانوں کی ہر دم چوکس فوجوں کو جب گزارا گیا تو ابوسفیان خوفزدہ ہوا اور بولا اے عباس تمہارے برادر زادے کی بادشاہت قائم ہوگئی۔ حضرت عباسؓ نے فرمایا کہ یہ بادشاہت نہیں نبوت ہے۔ تاریخ نے ثابت کیا کہ مضبوط عسکری صلاحیت حوصلہ اور دلیری ہی کسی حکومت کو استحکام عطا کرتی ہے اگر ہم اسی ولولے اور جوش کا مظاہرہ رکھتے تو آج یقیناً ہمارے ملک کے حالات مختلف ہوتے۔ لیکن ہم نے اس سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کبھی نہیں کیا کہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں اور اپنی خارجہ پالیسی اور استحکام کو مضبوط بنا سکیں۔ 28 مئی کا دن درحقیقت اس جذبے کو زندہ کرتا ہے جو ثابت کرتا ہے کہ جنگیں جذبے سے لڑی جاتی ہیں۔ ہیگل کا نظریہ ہے کہ وہ قومیں اس وقت مضبوط رہتی ہیں جو چیلنجز کو نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہوں۔ آج بھی ہمیں متحد ہوکر دشمن کا غرور خاک میں ملانے کی ضرورت ہے اور اسے یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ہم کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں اور وطن عزیز کا تحفظ کرنا بخوبی جانتے ہیں۔
اک جذبہ تعمیر تھا سو زندہ کر دیا
ہم نے عدوکے ملک کو شرمندہ کردیا