معزز قارئین و قاریات! دو سال پہلے جب مَیں نے آپ کو خواب میں آنے والے اپنے دوست بابا ٹلّ سے اپنے کالم میں متعارف کرایا تھا تو اُن کے بارے میں یہ ضرب اُلمِثل بھی بیان کی تھی کہ....
” ساڈے مسئلے کرے گا حلّ بابا ٹل، بابا ٹلّ!“
مَیں اپنے پیارے پاکستان اور اپنے جیسے عوام کے مسائل کے بارے میں سوچ سوچ کر سو گیا تو دیکھا کہ بابا ٹلّ اپنے عالی شان گھر کے وسیع و عریض ڈرائنگ روم میں رونق افروز ہیں اور مَیں اُن کے سامنے اپنے لئے مخصوص سنگل صوفے پر بیٹھا ہُوں۔ بلا تمہید بابا ٹلّ بولے ”اثر چوہان صاحب! آپ اتنا زیادہ سوچتے ہیں کہ مجھے آپ پر ترس آتا ہے۔ آپ کے چہرے پر لِکھا ہے کہ آپ پاکستان اور پاکستان کے عوام کے بارے میں میرے افکارِ تازہ سے مُستفید ہونا چاہتے ہیں، جو پوچھنا ہے پوچھیئے! میں حاضر ہُوں!“
مَیں۔ بابا ٹلّ جی! بہت سے سوال اور بہت سی باتیں ہیں ۔ فی الحال تو مجھے لندن میں زیرِ علاج وزیراعظم نواز شریف صاحب کی صحت کی فکر ہے۔ خبر ہے کہ اُنہوں نے برطانیہ میں اپنے قیام کی مُدّت بڑھا دی ہے اور اُس کے بعد امریکہ بھی جانا چاہتے ہیں؟
بابا ٹلّ ” اثر چوہان صاحب! شاعر نے کہا تھا کہ....
” تُم آسکو تو شب کو بڑھا دوں کچھ اور دیر
اپنے کہے میں، صُبح کا تارا ہے اِن دنوں!“
مَیں۔ لیکن بابا ٹلّ جی! آج کل صبح کا تارا، وزیراعظم کے کہے میں نہیں ہے اور مولانا فضل اُلرحمن کی دوڑ بھی آصف زرداری تک تھی۔ زرداری صاحب جرنیلوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کر کے خود مجبورِ محض بن چکے ہیں، وہ تو منتظر ہیں کہ آپ کب اُن کے خواب میں آ کر اُن کی مشکل کُشائی کرتے ہیں؟
بابا ٹلّ ”میری مُشکل یہ ہے کہ مَیں تو اپنے لاکھوں ساتھیوں سمیت جنرل پرویز مشرف صاحب کی آل پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو چکا ہُوں اور اسلام آباد کی ایک عدالت نے میرے قائد کو اشتہاری ملزم قرار دے دِیا ہے اور مَیں اُن کی بھی کوئی مدد نہیں کرسکتا“۔
مَیں۔ آل پاکستان مسلم لیگ کی سیکرٹری اطلاعات آسیہ اسحاق بھی تو آپ کی پارٹی چھوڑ کر مصطفےٰ کمال کی پاک سر زمین پارٹی میں چلی گئی ہیں؟
بابا ٹلّ۔ ”مَیں محترمہ آسیہ اسحاق کا نا محرم ہُوں۔ مَیں نے اُن پر کوئی تنقید کی تو مجھے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اُن پر ہلکا سا تشدد کرنے کے الزام میں پکڑوا دیں گے!“۔
مَیں۔ ”بابا ٹلّ جی! مولانا شیرانی اپنی اہلیہ¿ محترمہ پر ہلکا یا بھاری تشدد کرتے ہیں یا نہیں؟ اُنہوں نے یہ بات عام نہیں کی لیکن مَیں حیران ہُوں کہ وہ ہر میاں بیوی کے معاملات میں کیوں دخل دیتے رہتے ہیں؟ پاکستان میں بوڑھے اور غریب والدین کی شادی کے قابل لاکھوں بیٹیاں گھروں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں۔ مولانا شیرانی اور نوابوں اور جاگیر داروں کی سی زندگی بسر کرنے والے اُن جیسے عُلماءاِس مسئلے کا ذمہ دار ٹھہرا کر حکمرانوں کا محاسبہ کیوں نہیں کرتے؟
بابا ٹلّ۔ ”اُن عُلماءکا خیال بلکہ فتویٰ ہے کہ ”غُربت اور امارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے “۔ اب وہ حضرات اپنے مریدوں کو حکمران طبقے کے خلاف دھرنا دینے کا حکم تو نہیں دے سکتے کہ اُن کے نزدیک تو دھرنا شریعت کے خلاف ہے“۔
مَیں۔ مولانا فضل اُلرحمن کے دورہ¿ برطانیہ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
بابا ٹلّ۔ ”مولانا صاحب کا ہر بیرونی دَورہ کامیاب رہتا ہے اور اندرونِ مُلک بھی انہیں ہر دَور میں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ مولانا صاحب کو بہت سے ہُنر آتے ہیں اور وہ ہر حکمران کی ضرورت بن جاتے ہیں۔ اگر کوئی حکمران اقتدار سے محروم بھی ہو جائے تو اُس سے بھی عزت و احترام کا رشتہ قائم رکھتے ہیں اور اپنی عِزّت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں“۔
مَیں۔ بابا ٹلّ جی! ہُنر مند تو آپ بھی بہت ہیں لیکن آپ مولانا فضل اُلرحمن کی طرح شہرتِ عام اور بقائے دوام“ نہیں حاصل کرسکے؟۔
بابا ٹلّ۔ ” اِس موضوع پر مَیں آپ کی خدمت میں ایک شعر عرض کرتا ہوں....
” مُعترف مَیں نہ ہُوا ، اپنے کمالِ فن کا
ہائے کچھ قدر نہ کی ، اپنے ہُنر کی مَیں نے “
دراصل اثر چوہان صاحب! مَیں نے بھی اپنے جھنگوی دوست طاہر اُلقادری کی طرح 90 ملکوں میں اپنا کاروبار تو پھیلا لِیا لیکن پاکستانی سیاست میں ہم دونوں دوست ناکام رہے۔ البتہ مَیں نے ایک عقلمندی ضرور کی۔ مَیں نے طاہر اُلقادری کی طرح ”شیخ اُلاسلام“ کا لقب اختیار نہیں کِیا ، نہ ہی 555 کتابیں لِکھیںاور نہ ہی مسائل زدہ عوام کو ”انقلاب کا خواب“ دکھایا۔ مَیں تو آپ جیسے لوگوں کے خوابوں کو سجاتا ہُوں لیکن میری یہ منطق آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گی !“۔
مَیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بارے میںآپ کیا کہتے ہیں بابا ٹلّ جی؟
بابا ٹلّ۔ ”جنرل راحیل شریف کے بارے میں علاّمہ اقبالؒ نے کہا تھا....
” ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دِیدہ وَر پیدا“
جنرل راحیل شریف نے اپنے اربوں روپے کے دو قیمتی پلاٹ ”ُہداءفنڈ “ کو وقف کر کے اللہ اور اللہ کی مخلوق کو راضی کر لِیا ہے لیکن پاکستان کے ارب پتی اور کھرب پتی سیاستدان....
” نگاہیں نیچی کئے ، سر جُھکائے بیٹھے ہیں “
مَیں تو پریشان ہُوں کہ جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ کے بعد کیا ہوگا؟ کیا مستقبل کا آرمی چیف بھی اُن کے نقشِ قدم پر چلے گا؟
مَیں۔ بابا ٹلّ جی!۔ پاک فوج کے بارے میں بھی علاّمہ اقبالؒ نے اللہ تعالیٰ سے پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ....
” یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے
جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خُدائی“
بابا ٹلّ۔ ”اثر چوان صاحب! جنرل راحیل شریف کا تازہ ترین بیان حوصلہ افزا ہے کہ ”ہم مُلک دشمن عناصر کو نکال باہر پھینکیں گے لیکن سِویلین ہونے کے باوجود بلوچستان کے وزیر داخلہ جناب سرفراز بگٹی نے تو کمال کر دِیا جب کہا کہ ”16 لاکھ افغانستان مہاجرین اگر شرافت سے اپنے گھروں کو واپس نہ گئے تو پاکستان کے عوام انہیں دھکے دے کر ارضِ پاک سے باہر نکال دیں گے“۔
مَیں۔ لیکن بابا ٹلّ جی! 16 لاکھ افغان مہاجرین کو دھکّے دے کر پاکستان سے باہر نکالنے کے لئے کیا ہم 32 لاکھ عوام کو راضی کریں گے؟
بابا ٹلّ۔ افغان مہاجرین پاکستان کی مُعیشت پر بُوجھ ہیں۔ اُنہوں نے پاکستانیوں کے برادرانہ جذبات اور مہمان نوازی سے ناجائز فائدہ اُٹھایا۔ ہمارے مُلک میں کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کلچر کو فروغ دِیا اور دہشت گردی پھیلائی۔ اب ہم اُن کی مہمان نوازی نہیں کریں گے۔ اگرچہ آل پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہونے والے میرے لاکھوں ساتھی اپنے لیڈر جنرل (ر) پرویز مشرف کے لئے دُعاﺅں میں مصروف ہیں اور رمضان کا با برکت مہینہ بھی شروع ہونے والا ہے لیکن مَیں اُن سے درخواست کروں گا کہ وہ ”بلاّئے جان مہمان“ افغان مہاجرین کو دھکے دے کر وطنِ عزیز سے نکال باہر کرنے میں اہم کردار ادا کریں“۔
مَیں۔ بابا ٹلّ جی! اگر امریکہ نے آپ کو بھی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کردِیا تو؟
بابا ٹلّ نے ناراضی سے میری طرف دیکھا۔ اُن کے گلے کا ٹلّ خود بخود بجنے لگا اور میری آنکھ کُھل گئی۔