ایٹمی پاکستان، عالم اسلام کا احساس تفاخر

May 28, 2017

حقیقت یہ ہے کہ قوموں کی زندگی میں بعض لمحات اتنے منفرد، اہم اور تاریخی ہوتے ہیں کہ ان لمحوں کی اہمیت اور حیثیت کا مقابلہ کئی صدیاں بھی مل کر نہیں کر سکتیں، یہ منفرد و قیمتی لمحات دراصل تاریخ کا وہ حساس موڑ ہوتے ہیں، جہاں کوئی قوم اپنے لئے عزت و وقار اور غرور و تمکنت یا ذلت و رسوائی اور غلام و محکومی میں سے کسی ایک کا راستے کا انتخاب کرتی ہے، بزدل، ڈرپوک، ابن الوقت اور غلام ذہنیت کے لوگ ان تاریخ ساز لمحات کی قدر و قیمت نہیں جانتے اور نہ ہی ان کے دل و دماغ کسی چیلنج کو قبول کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں، نتیجتاً ایسی اقوام شاہراہ حیات پر دوسری اقوام سے پیچھے رہ جاتی ہیں اور پھر ان اقوام کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب یہ قومیں ماضی کی گرد میں کھو کر قصہ پارنیہ بن کر تاریخ کو بوسیدہ کتابوں کا حصہ بن جاتی ہیں لیکن اس کے برعکس جرات مند اور بہادر لوگ تاریخ کے ان نازک لمحات میں ہوش مندی اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ایسے تاریخی فیصلے کرتے ہیں جو قومی زندگی کی بقائ، سلامتی و استحکام اور تحفظ کیلئے لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔
چودہ اگست 1947ءکی یوم آزادی کے بعد 28 مئی 1998ءکا دن اور سہ پہر 3-20 منٹ کا وقت پاکستان کی تاریخ کا وہ تاریخ ساز لمحہ ہے، جس کے احسا تغاخر نے پوری قوم اور عالم اسلام کے مسلمانوں کا سرغرور و سر فخر اور خوشی و استنباط سے بلند کر دیا، 28 مئی ”یوم تکبیر“ پاکستان کی تاریخ کا وہ دن ہے جس دن پاکستان نے بلوچستان کے مقام ”چاغی“ کے پہاڑی سلسلے ”راس کوہ“ زیر زمین پانچ ایٹمی دھماکے کرکے عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور 11 مئی 1998ءکو پوکھران میں 3 اور 13 مئی کو 2 ایٹمی دھماکوں کے بھارتی ایٹمی ایڈوانچر کا دندان شکن جواب دیکر جنوب مشرق ایشیاءمیں ہندو بنیئے کے توسیع پسندانہ عزائم اور خطے میں جوہری بالادستی کے بھارتی منصوبے کو بھی خاک میں ملا دیا۔کامیاب ایٹمی دھماکوں سے پاکستان کو دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل ہو گیا اور ایٹمی تجربات نے ملت اسلامیہ پر پانچ صدیوں سے طاری جمود توڑ کر اس کو خواب خرگوش سے بیدار کر دیا، انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ایٹم بم ملت اسلامیہ کی نہ صرف بلکہ اس کے اتحاد کی علامت بھی ہے جو عہد رفتہ کی عظمت کو واپس لانے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔“
ذوالفقار علی بھٹو کا عزم تھا کہ ”ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے“ یہ ذوالفقار علی بھٹہ ہی کارنامہ تھا کہ جہاں ایک طرف انہوں نے فرانسیسی حکومت کو جوہری ری پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر کی پرانی پیشکش کی تجدید پر آمادہ کیا، وہیں انہوں نے پاکستان کے جوہری پروگرام کو درست سمت میں گامزن کرنے کیلئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو کہ اس وقت ہالینڈ میں مقیم تھے کو پاکستان بلوا کر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی ذمہ داریاں سونپیں، بھٹو جس تیزی سے پاکستان کا جوہری پروگرام بڑھا رہے تھے وہ امریکہ اور صہیونی لابی کے نزدیک کسی طور پر بھی قابل قبول اور قابل معافی جرم نہ تھا چنانچہ 1976ءمیں امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر نے پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو دھمکی دی کہ اگر تم نے ایٹمی ری پراسسنگ اور ایٹمی صلاحیت کرنے ک منصوبہ پر کام جاری رکھا تو ہم تمہیں مثال عبرت بنا دیں گے۔
لیکن قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے کیسنجر کی اس دھمکی کے باوجود پاکستان کا ایٹمی پروگرام جاری رکھا کیونکہ بھٹو کے نزدیک ان کی جان سے زیادہ ملک و قوم کی سلامتی اور بقاءزیادہ اہمیت کی حامل تھی جو پہلے ہی بھارتی ایٹمی پروگرام کی وجہ سے شدید خطرے میں تھی، دوسری طرف بھٹو صاحب کے حکم پر عالمی شہرت یافتہ مایہ ناز ایٹمی سائنسدان اور پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے بانی و معمار ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے انتہائی نامساجد حالات میں پاکستان کے جوہری پروگرام کا آغاز کیا، مشکل ترین حالات میں جوہری پروگرام کی تشکیل، تعمیر اور تکمیل کی یہ داستان بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کریم ہی کے بے پایاں فضل و کرم کا ثمر ہے، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زیر نگرانی 1976ءمیں پاکستان کے سائنسدانوں نے کہوٹہ لیبارٹری میں یورینیم کی افزودوگی کا کام شروع کیا اور 1982ءتک پاکستانی سائنسدان 90% افزودوگی کی صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے اور بالآخر وہ دن بھی آیا جب قومی و ملی جذبوں سے سرشار ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی پوری ٹیم کی اپنی انتھک محنت نے 28 مئی 1998ءکو بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ کامیاب ایٹمی دھماکے کرکے نہ صرف وطن عزیز کو ناقابل تسخیر قلعہ بنا دیا بلکہ قوم اور مسلح افواج کے مورال کو بھی آسمان کی بلندیوں پر لے گئے اور پوری قوم کے اعصاب سے ہندو بنیئے کے خوف کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا۔ 28 مئی 1998ءکا دن پاکستان کی تاریخ میں ”تحفظ نظریہ پاکستان اور تکمیل دفاع پاکستان کی تاریخ کا دن“ اور ”یوم تکبیر“ کے نام سے منسوب ہوا۔

مزیدخبریں