آج قوم ایک بار پھریومِ تکبیر کا جشن منا رہی ہے ۔مسلم لیگ ن کی حکومت اس کا دھوم دھام اور زور وشور سے اہتمام کرتی ہے۔کوئی دوسری حکومت ہو تو اسے عموماً یوم تکبیر سے خاص سروکار نہیں ہوتا بس ایک رسمی بیان جاری کردیا جاتا ہے۔28مئی1998ءہماری تاریخ کا ناقابل فراموش دن ہے۔ اس روز پاکستان ایک باقاعدہ ایٹمی قوت کے طور پر دنیا کے سامنے مہتاب و آفتاب بن کے ابھرا اور کئی سال کی محنت شاقہ سے تخلیق کئے گئے ایٹم بم کا دھماکہ کیا گیا۔وزیر اعظم نواز شریک نے اس دن کا نام تجویز کرنے کیلئے پوری قوم کو دعوت دی۔بیشمار نام سامنے آئے تاہم اتفاق” یوم تکبیر“ پرکیا گیا۔ نام تجویز کرنے والوں کی پزیرائی کی گئی۔میجر نذیر احمد فاروق کہتے ہیں کہ وہ بھی نام تجویز کرنے والوں میں شامل ہیں۔ انہیں وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے ”یوم تکبیر“ نام تجویز کرنے پر تحسین کا ایک لیٹر جاری کیامگر ان کانام اس سرکاری لسٹ میں شامل نہیں جن کی حکومت نے پزیرائی کی اورباقاعدہ نقد انعام سے نوازا، اہمیت اور ضرورت انعام کی نہیں،اس اعزاز کی ہے جو نسلوں تک برقرار اور یادگار رہتا ہے۔انہیںشاید اس لئے اعزاز سے محروم رکھا کہ انکے نام کے ساتھ میجر لکھا ہے اور نواز شریف کی فوج سے ”خصوصی محبت“ کی شہرت رکھتے ہیں۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے تو زیادتیاں کیا! ظلم ہوتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں۔ایٹم بم کسی فیکٹری کی تکنیکی پیداوار نہیں ہے۔ یہ پاکستان کے سائنسدانوں کے دست ہنر مند اور ذہن رسا کا عظیم شاہکار ہے۔ماضی میں ایسا ہوتا رہاہے کہ شاہکار کے تخلیق کاروں کے ہاتھ کاٹ دیئے جاتے تھے کہ مبادہ وہ مستقبل میںایسا پھر کوئی کمال کرسکیں ۔یہی کچھ ہمارے سائنسدانوں کے ساتھ ہوچکا ہے اور ہورہا ہے۔
میرے سامنے پندرہ سال پرانی بی بی سی کی رپورٹیں پڑی ہیں جن کو پڑھ کے دل پر ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے۔یہ مشرف دور تھا ۔ان سائنسدانوں کی حالت زار کو دیکھیں تو لگتا ہے مشرف کادور ابھی جاری ہے۔ ڈاکٹر قدیر خان اور انکے ساتھی کہاں ہیں؟کیسے ہیں؟ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو اس کا علم نہیں۔آیئے پہلے بی بی سی کی 2004ءکے ابتدائی مہینوں کی رپورٹس پر سرسری سی نظر ڈال لیتے ہیں۔یہ وہ دور تھا جب ڈاکٹر اے کیو خان صدر جنرل پرویز مشرف کے مشیر تھے اور ایک موقع پر مشرف نے ایک تقریب میں انہیں نابغہ روزگار قرار دیا اور دوسری بار ان کو پاکستان کے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا تھا مگر بادی¿ النظر میں نائن الیون کے بعدمشرف ایک بار پھرامریکہ کے سامنے بکری بن گئے۔بی بی سی نے اُن دنوں لکھا۔”ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ایران، شمالی کوریا اور لیبیا کو ایٹمی معلومات فراہم کرنے کے مبینہ اعتراف (یہ وہ اعتراف ہے جو مشرف حکومت کی طرف سے دیا گیا مسودہ تھا جو ڈاکٹر صاحب کو ٹی وی پر پڑھنے کو کہا گیا)کے بعد ایک فوجی جنرل نے سینئر صحافیوں کو خصوصی بریفنگ دی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر، انکے آٹھ ماتحت ملازمین، ایک مبینہ کاروباری شراکتی دوست اور تین ریٹائرڈ فوجی افسران کوایٹمی معلومات برآمد کرنے کا قصور وار ٹھہرایا گیا ۔ڈاکٹر خان اور ڈاکٹر فاروق پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں اہم کردار گردانا گیا جبکہ بعض پر یہ الزام لگایا کہ انہیں یہ سب معلوم تھا لیکن انہوں نے خاموشی اختیار کی اور متعلقہ حکام کو آگاہ نہیں کیا۔ڈاکٹر خان کے تحریری بیان کی روشنی میں تیار کی جانےوالی تحقیقاتی رپورٹ صدر جنرل مشرف کے حوالے کردی گئی ہے جو چند روز میں نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس بلائیں گے۔ اس اجلاس میں یہ فیصلہ ہو گا کہ ڈاکٹر خان کےخلاف کارروائی کیلئے خصوصی ٹریبونل بنایا جائے یا عام عدالت یا فوجی عدالت میں کارروائی کی جائے۔ان معاملات کا فیصلہ بھی یہی اتھارٹی کرےگی کہ کیا سماعت بند کمرے میں ہو یا کھلی عدالت میں، اور یہ کہ ان سائنسدانوں پر کن قوانین کے تحت مقدمات چلائے جائیں۔ ان قوانین میں نیوکلیئر ایکسپورٹ قوانین ، ملٹری ایکٹ اور آفیشل سیکریسی ایکٹ شامل ہیں۔
جن افراد کو ڈی بریفنگ کے بعد قصوروار ٹھہرایا گیا ہے ان میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے علاوہ ڈاکٹر فاروق، ڈاکٹر مجید، ڈاکٹر زبیر، ڈاکٹر نسیم، ڈاکٹر منصور، ڈاکٹر اشرف عطا، یاسین چوہان، ٹیکنیشن سعید، ڈاکٹر قدیر کے مبینہ بزنس پارٹنراعزاز جعفری، بریگیڈیر (ر) سجاول، بریگیڈیر (ر) تاجور اور میجر(ر) اسلام الحق شامل ہیں۔ان رپورٹوں میں اور بھی بےشمار اس دور کے حکمرانوں کی بیہودگیاں شامل ہیں،جن کو پڑھنے سے ”اصل“ پاکستانی سائنسدانوں سے محبت کرنے والوں کی دل آزاری ہوگی۔ان دنوںدو سائنسدانوں ڈاکٹر فاروق، ڈاکٹر نذیر جبکہ دو ریٹائرڈ فوجی افسران برگیڈیئر سجاول اور میجر اسلام الحق کو حراست میں لیا گیا۔اس دور میں مشرف کی زیر قیادت فوج ایٹمی سائنسدانوں کیخلاف پارٹی بن چکی تھی۔شوکت سلطان ان دنوں فوجی ترجمان تھے، فوجی قیادتیں بھی بے قصور ثابت کی گئیں۔میجر جنرل شوکت سلطان نے اپنے فوجی بھائیوں کے بارے میں کہا کہ مرزا اسلم بیگ، جنرل جہانگیر کرامت اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) ذوالفقار علی سے بھی تفصیلی پوچھ گچھ کی ہے۔ اسکے بعد نزلہ بر عضو ضعیف گرا۔مشرف اور انکے چند فوجی حواری امریکہ برداری میںاخلاقیات کی پستیوں میں گرے نظر آتے ہیں۔فوجی ترجمان نے کہاتھا کہ ڈاکٹر خان نے ایرانی حکام کو خط لکھا تھا کہ وہ انکا نام نہ لیں اور جو لوگ مر چکے ہیں، مثلاً ڈاکٹر نیازی اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) امتیاز وغیرہ، ان کا نام لیں۔ تاہم انکا دو صفحات کا خط پکڑا گیا۔یہ بھی کہا گیا کہ ڈاکٹر خان نے اپنے دفاع کیلئے ایک ویڈیو بیان ریکارڈ کرا کے لندن سے بیٹی کو بلوا کر کہا کہ وہ یہ پرائیویٹ ٹی وی چینل کو اس وقت دے دیں جب وہ گرفتار ہو جائیں۔ فوجی افسر کے مطابق وہ ویڈیو ٹیپ بھی پکڑی گئی ۔یہ وہ دور تھا جب ڈاکٹر اے کیو خان کی نظر بندی کے ساتھ زباں بندی بھی تھی۔یہ سب کچھ امریکہ سرکار کو مطمئن کرنے کیلئے کیا گیا مگر کس قیمت پر۔محسن کشی کی گئی،ہیروز کی توہین کی گئی۔ ان کو حراست میں لیا گیا۔ڈاکٹر اے کیو خان ابھی تک اپنے گھر میں نظر بند ہیں۔تاہم پیشگی اجازت سے وہ گھر سے باہرجا سکتے۔ڈاکٹر فاروق کو آئی ایس آئی اُٹھا کے لے گئی تاہم کچھ ماہ بعد ان کو گھر بھیج دیا گیا۔وہ بھی تاحال اپنے گھر تک محدود ہیں۔اقبال ایبٹ آبادی خود کو فخر سے بنیاد پرست کہلاتے ہیں وہ کبھی فون کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ڈاکٹر فاروق بھی پیشگی اجازت سے کہیں نہیںجاسکتے۔دونوں عظیم سائنسدانوں پر پہرہ لگا ہے۔ اس پہرے کو کوئی زیر حراست کہے یا زیر حفاظت۔ آصف بھلی فون پر اپنے ہیروز کے ساتھ بے اعتنائی پر مایوسی اور تشویش کا اظہار کررہے تھے۔ڈاکٹر دیر اور ڈاکٹر فاروق کے سوا باقی سب کو 2004ءمیں رہا کردیا گیا تھا۔ان پر یہی ستم نہیں بلکہ ایٹم بم کی تخلیق کا کریڈٹ بھی چھیننے کی کوشش کی گئی۔ایک اور سائنسدان کو مزید کریڈٹ دینے کی کوشش کی گئی ۔ شنید ہے کہ ڈاکٹر ثمر مبارک مندنواز شریف کی طرح فرزند ماڈل ٹاﺅن اور میاں صاحب کی طرح راوین بھی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ نواز شریف نے ثمرمبارک مند کو انکی اہلیت و قابلیت سے بڑھ کر درجہ دینے کی کوشش کی۔ ثمر مبارک مند کا شاہین کا تجربہ تو ناکام ہو گیا اور وہ پاکستان کا پہلا میزائل فائر کرنے کا کریڈٹ لینے سے قاصر رہے‘ یہ ایک طویل داستان ہے جو ڈاکٹر اے کیو خان بیان کرچکے ہیں۔
نواز شریف ان کیلئے ایٹمی تجربے کا بٹن دبانے کے اعزاز کا اہتمام کرنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر اے کیو خان کے پاس وزیراعظم نوازشریف نے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو بھیجا۔ جنرل جہانگیر کرامت نے کہا کہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا شاہین میزائل کا تجربہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ وہ بڑے مایوس ہیں، ان کا مورال ڈاﺅن ہے۔ مورال اپ کرنے کیلئے ایٹمی دھماکے کا بٹن دبانے کا اعزاز انہیں دیا جانا چاہئیے۔ اے کیو خان نے جنرل کرامت کو یہ کہہ کر لاجواب کر دیا کہ جنرل نیازی نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالے تو اس سے زیادہ کسی جنرل کا مورال ڈاﺅن نہیںہو سکتا۔ بھارت کی قید سے رہائی کے بعد مورال اپ کرنے کیلئے جنرل نیازی کوآرمی چیف بنا دیا جاتا۔جب ایک طرف ثمر مبارک مند کا شاہین میزائل کا پہلا تجربہ ناکام رہا تو اسکے تین منٹ بعد جہلم رینج سے غوری میزائل کا کامیاب تجربہ کیا گیا اس موقع پر کورکمانڈر منگلا جنرل مشرف ”پی“ کے آگئے تھے تو ڈاکٹر صاحب نے ان کو برملا شرم دلائی تھی،شاید یہ بات مشرف کبھی نہ بھلا سکے۔