اسلام آباد (آئی این پی ) وفاق المدارس ،وفاق المدارس العربیہ، رابطة المدارس ، وفاق المدارس ، پاکستان علماءکونسل اور دارالعلوم کراچی سمیت مختلف اداروں ، مسالک اور مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علماءکرام اور مشائخ عظام نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف متفقہ فتویٰ جاری کرتے ہوئے محاذ آرائی ، فساد ، دہشت گردی ، شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال کو حرام قرار دے دیا اور کہا کہ اسلام اور برداشت کے نام پر دہشت گردی کو مسترد کرتے ہیں ،دستور کے کسی حصہ پر عمل کرنے میںکسی کو کوتاہی کی بنا پرملک کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار کرنا کسی صورت درست نہیں ۔ لہذا اس کی بناءپر ملک یا اس کی حکومت ، فوج یا دوسری سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کے خلاف مسلح کارروائی کا کوئی شرعی جواز نہیں ، ایسا عمل اسلامی تعلیمات کی رو سے بغاوت کا سنگین جرم ہے، نفاذ شریعت کے نام پرطاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی ، تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں حرام قطعی ، شریعت کی رو سے ممنوع اور بغاوت ہیں ، ریاست کے ملک دشمن عناصر کو کچلنے کے لئے شروع کیے گئے آپریشنز ”ضرب عضب “ اور ”رد الفساد“ کی مکمل حمایت کرتے ہیں ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علماءاورمشائخ سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے طبقات ریاست اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں، یہ متفقہ فتویٰ اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور اسلامی بین الاقوامی یونیورسٹی کے زیر اہتمام یہاں قائد اعظم یونیورسٹی میں مذہبی برداشت و ہم آہنگی کے فروغ کے موضوع پرکانفرنس کے اختتام پر جاری کیا گیا ، جس میں صدر مملکت ممنون حسین اور مسلم ممالک کے جیدعلماءنے بھی شرکت کی ۔ کانفرنس کے اختتام پر متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس پر ملک کے معروف 31 علماءکرام و مشائخ عظام کے دستخط موجود ہیں ۔ اعلامیہ کے مطابق تمام دینی مسالک کے نمائندے علماءنے شرعی دلائل کی روشنی میں قتل ناحق کے عنوان سے خود کش حملوں کے حرام قطعی ہونے کا جو فتویٰ جاری کیا تھا اس کی مکمل حمایت کی جاتی ہے ۔ نیز لسانی ، علاقائی ، مذہبی اور مسلکی عصبیت کے نام پر جو مسلح گروہ ریاست کے خلاف مصروف عمل ہیں یہ سب شریعت کے احکام کے منافی اور قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا سبب ہیں لہذا ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان تمام گروہوں کے خلاف بھرپور کارروائی کریں ۔ صراحت، کنایہ ، اشارہ، تعریض اور توریہ کی ذریعے کسی بھی صورت میں نبی کریم انبیائے کرام و رسل عظام علیھم السلام ، امہات المومنین ، اہل بیت اطہار ، صحابہ کرام ، شعائر اسلام کی اہانت کے حوالے سے ضابطہ فوجداری کے سیکشن 295 کی تمام دفعات کو ریاستی اداروں کے ذریعے لفظا اور معنی نافذ کیا جائے اور اگر ان قوانین کا کہیں غلط استعمال ہوا ہے تو اس کے ازالے کی احسن تدبیر ضروری ہے ۔ مگر قانون کو کسی صورت میں کوئی فرد یا گروہ اپنے ہاتھ میں لینے اور متوازی عدالتی نظام قائم کرنے کا مجاز نہیں ۔متفقہ فتوے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں رہنے والے پابند آئین و قانون تمام غیر مسلم شہریوں کو جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ اور ملکی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے دہی شہری حقوق حاصل ہیں جو پابند آئین و قانون مسلمانوں کو حاصل ہیں نیز یہ کہ پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو اپنی عبادت گاہوں میں اور اپنے تہوارون کے موقع پر اپنے مذاہب کے مطابق عبادت کرنے اور دینی مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اسلام خواتین کو احترام عطاءکرتا ہے اور ان کے حقوق کی پاسداری کرتا ہے رسول اللہ نے خطبہ حجتہ الوداع میں بھی خواتین کے حقوق کی پاسداری کرنے کی تلقین کی ہے۔ نیز رسول اللہ کے دور سے اسلامی ریاست میں خواتین کی تعلیم و تربیت جاری رہی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق خواتین کو حق رائے دہی ‘ حصول تعلیم اور ملازمت کا حق حاصل ہے۔ خواتین کے تعلیمی اداروں کو تباہ کرنا اور خواتین اساتذہ پر حملے کرنا انسانی اقدار ‘ اسلامی تعلیمات اور قانون کے منافی ہے۔ اسی طرح اسلامی تعلیمات کی رو سے غیرت کے نام پر قتل ‘ قرآن سے شادی ‘ وٹہ سٹہ ‘ ونی اور خواتین کے دیگر حقوق کی پامالی احکامات شریعت میں سختی سے ممنوع ہے۔ حکومت قانون قصاص و تعزیر کے علاوہ دیگر حق تلفیوں کے بارے میں قانون سازی کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وراثت میں خواتین کا حق یقینی بنائے۔ لاﺅڈ سپیکر کے ہر طرح کے غیر قانونی استعمال کی ہر صورت میں حوصلہ شکنی کی جائے اور متعلقہ قانون پر من و عن عمل کیا جائے اور منبر و محراب سے جاری ہونے والے نفرت انگیز خطابات کو ریکارڈ کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے نیز ٹیلیویژن چینلوں پر مذہبی موضوعات پر مناظرہ بازی کو قانوناً ممنوع اور قابل دست اندازی پولیس قرار دیا جائے۔ الیکٹرانک میڈیا کے حق آزادی اظہار کو قانون کے دائرے میں لایا جائے اور اس کی حدود کا تعین کیا جائے او ر ہر اس پروگرام پر پابندی لگائی جائے جو پاکستان کی اسلامی شناخت کو مجروح کرے۔ طاقت کے زور پر اپنے نظریات کو دوسرے پر مسلط کرنے کی روش شریعت کے احکامات کی مخالفت اور فساد فی الارض ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور و قانون کی رو سے ایک قومی و ملی جرم بھی ہے۔ متفقہ فتویٰ میں مختلف مسالک اور مکاتب فکر 31 علماءکرام اور مشائخ عظام کے دستخط موجود ہیں ان میں مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی ‘ مولانا مفتی منیب الرحمن ‘ مولانا عبدالمالک ‘ مولانا عبدالرزاق سکندر ‘ مولانا محمد حنیف جالندھری ‘ علامہ سید ریاض حسین نجفی ‘ مولانا محمد یاسین ظفر ‘ مولانا ڈاکٹر ابو الحسن محمد شاہ ‘ مولانا مفتی محمد نعیم ‘ مولانا تنویر احمد جلالی ‘ مولانا محمد اسحاق ظفر ‘ مولانا غلام مرتضیٰ ہزاروی ‘ مولانا ڈاکٹر محمد ظفر اقبال جلالی ‘ مولانا ابو الظفر غلام محمد سیالوی ‘ مولانا زاہد محمود قاسمی ‘ مولانا ڈاکٹر سید محمد نجفی ‘ مولانا محمد افضل حیدری ‘ مولانا سعید عبدالرزاق ‘ مولانا ڈاکٹر مفتی سعید الرحمن ‘ مولانا سید قطب ‘ مولانا عبدالحق ثانی ‘ مولانا مفتی محمود الحسن محمود ‘ مولانا پروفیسر ڈاکٹر عبدالقدوس صہیب ‘ مولانا محمد عبدالقادر ‘ مولانا حامد الحق حقانی ‘ مولانا سیف اللہ ‘ پروفیسر ڈاکٹر ظفر اللہ بیگ ‘ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر حکیم ‘ تنویر احمد علوی ‘ مولانا محمد شریف ہزاروی ‘ ملک مومن حسین اور مفتی رحیم اللہ شامل ہیں۔
فتویٰ