ملک خداداد کو اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بنے آج 20 برس ہو گئے۔ ملک کی بقاء و سلامتی کی ضامن اس ایٹمی قوت کے حصول کے پیچھے موجود قومی جذبے اور جذبات کو ہمہ وقت تروتازہ رکھنے کیلئے قوم ہر سال 28 مئی کو روایتی جوش و جذبے کے ساتھ یوم تکبیر مناتی ہے۔ آج ملک کا 20واں یوم تکبیر بھی پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی سرخوشی میں اور پاکستان کی سالمیت کیخلاف شروع دن سے گھناﺅنی سازشوں میں مصروف ازلی اور روایتی دشمن بھارت کو یہ احساس دلانے کیلئے منایا جا رہا ہے کہ وہ ہمیں ترنوالہ نہ سمجھے۔ یوم تکبیر کی مرکزی اور سب سے بڑی تقریب آج ایوان کارکنانِ لاہور میں منعقد ہو رہی ہے۔ جناب مجید نظامی سالہا سال اس تقریب کے روحِ و رواں رہے۔ رحلت کے بعد تقریب میں انکی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ یوم تکبیر کی اس تقریب میں اب محترم مجید نظامی کے بعد وطنیت سے سرشار جذبے اور جذبات کا اظہار سننے کو نہیں ملتا جو اس پروقار تقریب کی شان اور جان ہوا کرتے تھے مگر وہ آج ہم میں نہیں ہیں۔ آج کی تقریب میں مقررین وطن عزیز کو درپیش چیلنجوں کے تناظر میں ملک کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے تحفظ و توسیع کے تقاضوں پر روشنی ڈالیں گے اور یوم تکبیر کی اہمیت کو اجاگر کیا جائیگا۔
پاکستان ایک پرامن ملک ہے جس کے کبھی کسی پڑوسی کیخلاف جارحانہ عزائم نہیں رہے جبکہ بھارت کا معاملہ اسکے برعکس ہے۔ اس نے 16 دسمبر 1971ءکو گھناﺅنی سازش اور فوجی طاقت سے مشرقی پاکستان کو الگ کر دیا اور پھر باقی ماندہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف بھی اپنی سازشوں کے جال پھیلانا شروع کر دئیے۔ اسی نیت سے اس نے سقوط ڈھاکہ کے تین سال بعد 1974ء میں پوکھران میں ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کیخلاف اپنے مذموم عزائم کا اظہار کیا جبکہ روائتی اسلحہ کے وہ اپنے ہاں پہلے ہی انبار لگا چکا تھا۔ پاکستان کبھی بھارت کے ساتھ اسلحہ کی دوڑ میں شامل نہیں رہا تاہم اپنی بقا کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول اس کی بھی مجبوری بن گئی۔ اس مقصد کے لئے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے لئے ایٹمی توانائی کے حصول کی منصوبہ بندی کو عملی شکل دی اور یہ اعلان کرکے دشمن کی صفوں میں کھلبلی پیدا کی کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ انہوں نے اس مقصد کیلئے ہالینڈ میں موجود نوجوان پاکستانی ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات حاصل کیں۔ انہیں سنٹری فیوجز کے حصول پر مامور کیا جنہوں نے ایٹمی سائنس دانوں کی مستعد ٹیم کی معاونت سے ملک کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنے کا کارنامہ سرانجام دے دیا۔
وطن عزیز کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنے میں بھٹو مرحوم کے بعد جنرل ضیاء الحق، غلام اسحاق خاں اور محترمہ بینظیر بھٹو کی کاوشوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تاہم باضابطہ طور پر پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کرنے کا اعزاز میاں نواز شریف کو حاصل ہوا جنہوں نے بھارت کی جانب سے دوسری بار کئے گئے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998ءکو چاغی کے مقام پر ایٹمی بٹن دبا کر وطن عزیز کے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا۔ یہ اعزاز بلاشبہ سالہا سال کی جدوجہد کا ثمر ہے۔ وزیراعظم نوازشریف پر مقامی اور عالمی سطح پر دھماکے نہ کرنے کا دباﺅ تھا۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے 5 ارب ڈالر میاں نوازشریف کے ذاتی اکاﺅنٹ میں جمع کرانے کی پیشکش کی جسے انہوں نے ٹھکرا دیا۔3 مئی 1998ءکو بھارت کی طرف سے کئے گئے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اگر اس وقت میاں نواز شریف امریکی صدر کلنٹن کی پاکستان کو عالمی تنہائی میں دھکیلنے کی دھمکیوں سے مرعوب ہو کر یا پانچ ارب ڈالر کی پیشکش قبول کرکے 28 مئی کو ایٹمی دھماکے نہ کرتے تو اندھی طاقت کے نشے میں بدمت ہمارا دشمن پڑوسی ملک ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے اب تک نہ جانے کیا کیا اقدامات اٹھا چکا ہوتا۔ میاں نوازشریف کو ایٹمی دھماکے کرنے کی ہمت بھی امام صحافت مجید نظامی کے اس دھمکی آمیز تاریخی فقرے نے بندھائی تھی کہ ”میاں صاحب! آپ دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دیگی‘ میں آپ کا دھماکہ کر دوں گا“ میاں نوازشریف نے تو اس سے قبل 25 دن شش و پنج میں پڑے اپنے مصاحبین سے مشاورت میں گزار دیئے تھے۔
آج پاکستان کا جغرافیائی سرحدوں کے حوالے سے دفاع ،اس کے ایٹمی قوت ہونے کے ناطے ناقابل تسخیر ہو چکا ہے مگر اندرونی طور پر دشمن ہمیں عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش میں ہے۔نااہلیت پر نوازشریف وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو گئے۔ وہ بجا طور پر پاکستان کو ایٹمی قوت سے سرفراز کرنے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ 4سال اقتدار میں رہے، آج بھی وزارت عظمیٰ کے منصب پر ان کے فائز کردہ وزیراعظم ہیں۔ پانچ سال میں یوم تکبیر کی اہمیت کو نظرانداز کیا جاتا رہا محض خانہ پری کیلئے قوم کے نام پیغام جاری ہوتا رہا یا کوئی چھوٹی موٹی تقریب منعقد کر دی جاتی۔ پی پی کے گزشتہ پانچ سال میں تو یہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ آج ہمیں اپنی خود مختاری اور مسلم لیگ ن کے دور میں یوم تکبیر سرکاری سطح پر منانے کا اہتمام کیوں نہیں کیا جاتا۔ کیا وہ آج بھی اس بھارت کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتے جو آج ہماری اقتصادی راہداری کو بھی سبوتاژ کرنے کی مکروہ سازشوں کے تحت پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کے درپے ہے۔ اس وقت جبکہ چاروں جانب سے ملک کی سرحدوں اور سالمیت کو خطرات درپیش ہیں اور بھارت ہی نہیں ہمارے پڑوسی برادر مسلم ممالک کے بھی ہمارے معاملہ میں تیور بدلے ہوئے نظر آتے ہیں جن کی ہمارے بجائے بھارت کے ساتھ قربت بڑھ رہی ہے اور اس تناظر میں گوادر پورٹ تک دنیا کی رسائی ناممکن بنانے کے لئے پاکستان چین اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کی بھارتی سازشوں میںکچھ ممالک کا عمل دخل نظر آتا ہے
آج الحمد للہ! پاکستان کا دفاع نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کے بعد ناقابل تسخیر ہو چکا ہے۔اس کی بھارت کے ایما پر عالمی سطح پر بڑی مخالفت ہو رہی ہے۔ پاکستان کو کبھی امریکہ جیسی سپر پاور کیساتھ تعلقات میں کشیدگی کی صورت میں بھاری قیمت بھی چکانا پڑی ہے۔ بلاشبہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ معیاری اور محفوظ ہے مگر ایک مخصوص عالمی ذہنیت پاکستان کو دباﺅ میں لانے کیلئے کوشاں رہی ہے، جس کا پاکستان نے دانشمندی اور جرا¿ت سے مقابلہ کیا۔
پاکستان کے دفاع کے ناقابل تسخیر ہونے کی طرح جمہوریت کو بھی مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ پاکستان آج جمہوریت مضبوطی کی طرف گامزن ہے۔ فوجی آمریتوں نے پاکستان کے 33سال برباد کردیئے۔ تاہم دس سال سے جمہوریت پٹڑی پر رواں دواں ہے۔ پیپلزپارٹی کے بعد مسلم لیگ ن نے بھی اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کر لی۔ صدر کی طرف سے 25جولائی کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی منظوری دی گئی ہے۔ اس سے انتخابات میں التوا کی افواہیں دم توڑ گئی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں میں جمہوری رویوں کا افسوسناک پر فقدان نظر آتا ہے۔ ایک دوسرے کیلئے عدم برداشت کے مظاہرے ہو رہے ہیں۔سیاسی مخالفت الزام سے ہوتی ہوئی دشنام تک پہنچ گئی ہے۔ سیاست دان ذاتیات پر اتر آئے ہیں۔ جس سے ان کا اپنا امیج گہنا رہا ہے۔نگران سیٹ اپ پر عدم اتفاق افسوسناک ہے مگر بہتری کی امید بہرحال کی جا سکتی ہے کے پی کے میں نگران وزیراعلیٰ کی نامزدگی پر اتفاق قابل ستائش ہے۔ مرکز میں اگر نگران وزیراعظم پر اتفاق نہیں ہو سکا تو نگران وزیراعظم کا تقرر مجوزہ طریقہ کار کے مطابق ہوگا، جو پارلیمان نے طے کر رکھا ہے۔ قوم سیاسی اشرافیہ سے جمہوری رویوں کی زیادہ توقع رکھتی ہے ۔
31مئی کو میعاد پوری کرنے والی پارلیمنٹ کا سب سے بڑا کارنامہ فاٹا کو قومی دھارے میں لانا ہے جس کیلئے قومی اسمبلی اور سینٹ سے دو تہائی اکثریت سے بل پاس ہوا۔ گزشتہ روز کے پی کے میں بل کی منظوری کے موقع پر مخالفین کے چند درجن لوگوں نے مظاہرہ کیا۔ پرامن مظاہرے کو بھی بل کی مخالفت کرنے والوں کا جمہوری حق قرار دیا جا سکتا ہے تاہم اب جب فاٹا کا کے پی کے میں انضمام ہو چکا ہے تو مخالفت کرنے والے بھی فاٹا کے عوام کی تعمیر و ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ جبکہ آج پاکستان بیرونی دباﺅ کا شکار ہے۔ سرحدوں پر گرما گرمی ہوتی رہتی ہے۔ اندرون ملک بھی حالات قابل رشک نہیں ۔ آج ملکی استحکام اور دشمن کو دندان شکن جواب دینے کیلئے اس جذبے کی ضرورت ہے جو قوم کے اندر 28 مئی 1999ءکو بھارت کے پانچ دھماکوں کے جواب میں سات دھماکے کرنے کے موقع پر تھا۔