یہ 28 مئی 1998 کی ایک گرم سہ پہر تھی، بلوچستان کے ضلع چاغی کے پہاڑی سلسلے میں پاکستانی سائنسدانوں نے 5 نیوکلیر تجربات کیے تو دنیا بھر میں کھلبلی مچ گئی۔ 30 مئی کو چھٹا دھماکہ کرکے پاکستان کو دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بنانے کا عمل مکمل کر دیا۔ یہ تجربات بھارت کی طرف سے راجستھان کے پوکھران صحرا میں کیے گئے 5 ایٹمی تجربات کا رد عمل تھے جو کہ 11 اور 13 مئی کو کیے گئے تھے۔ بھارت نے 24 سال کے دوران دوسری مرتبہ ایٹمی تجربات کیے تھے۔اس سے پہلے 1974 میں بھی بھارت ایٹمی تجربات کرکے جنوبی ایشیاءمیں ایٹمی ہتھیاروں کے دوڑ کی بنیاد رکھ چکا تھا۔ بھارتی دھماکوں کے بعد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز کردیا تھا اور اس کام کےلئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نیوکلیر پروگرام کی سربراہی سونپ دی گئی تھی۔ چوبیس سال میں خطیر رقم سے مکمل ہونے والا یہ پروگرام جنرل ضیاءالحق کے دور میں بھی بلا تعطل چلتا رہا۔ جنرل ضیاءکے بعد آنے والی حکومتوں نے بھی اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالی، اور اس طرح پاکستان اپنے روایتی حریف کے مدمقابل آگیا۔ اوردنیا نے دیکھا اسی مفلوک الحال قوم نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کا قول سچ ثابت کرتے ہوئے کہ ہم گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے اور پھر ایٹم بم بنا بھی لیا اور دشمن کو انتباہ بھی کر دیا کہ وہ سوچ سمجھ کر پاکستان کو دھمکیاں دے۔
یہ ایٹمی میدان میں برابری ہی تھی جس کی وجہ سے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو دوستی بس پر لاہور آنا پڑا۔ کارگل کی جنگ میں جب بھارت شدید مشکلات میں تھا تب بھی وہ پاکستان پر حملے کی جرا¿ت نہیں کرسکا۔ روایتی ہتھیاروں میں برابری نہ ہونے کے باوجود نیوکلیر ڈھال پاکستان کو مشرقی سرحدوں سے جارحیت سے بچاتی رہی ہے۔ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی معاشی بندشیں اور پابندیاں بھی پاکستان کے استقلال کو جنبش نہ دے سکی۔لیکن اگر کسی نے جنبش دی تو وہ ہمیں اپنوں نے دی، منتخب سیاستدانوں کی جانب سے کھربوں کی کرپشن کی گئی۔
آج ہمیں ایٹمی قوت بنے 20برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ معیشت اپنی نہیں رہی، جغرافیائی حدود اپنی نہیں رہیں، امریکی ڈرون جب چاہتے ہیں ملک میں درآتے ہیں‘ جہاں چاہتے ہیں بم مارتے ہیں‘ امریکی جس کو چاہتے ہیں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اُن کا شہری سڑک پر دو قتل کرتا ہے، اس کو واپس بھیج دیا جاتا ہے، اور پاکستانی شہری ثناءاللہ اگر غلطی سے مویشی چراتا ہوا بھارتی سرحد کے اندر داخل ہوجائے تو اسے نہیں چھڑا سکتے۔ آج ایٹمی قوت بننے کے 20 سال بعد پاکستان کو بیرون ملک سے گیس چاہیے، پیٹرول چاہیے، زرعی اجناس بھی چاہیے۔ پاکستان پتھر کے دور میں نہیں تو اور کس دور میں ہے! پانی، بجلی، گیس، پٹرول کا بحران ہے، کوئی اس ملک میں آنے کوتیار نہیں، پاکستان کا پاسپورٹ دنیا کا بے وقعت پاسپورٹ۔ امریکا پاکستان کو مشورہ دے رہا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی بھارت کے ساتھ تجارتی روابط کے بغیر ممکن نہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف بھارتی زبان بول رہے ہیں۔ بھارت ہمارے لوگوں کو استعمال کرکے ہمارے ہی خلاف پراپیگنڈہ کرانے میں کامیاب ہورہا ہے اور ہم منہ دیکھ رہے ہیں۔ یہاں پاک فوج کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جو پاکستان کا وقار برقرار رکھ سکے،پاک فوج اپنے ہی ملک میں کئی محاذوں پر لڑ رہی ہے، وہ ان دشمن نما گھس بیٹھیوں سے بھی نمٹ رہی ہے جو رہتے تو پاکستان میںہیں مگر زبان دشمن کی بولتے ہیں۔
یہ گورے لوگ دور اندیش ہیں سالوں کی منصوبہ بند ی کرتے ہیں مگر ہم لوگ اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھتے ۔سازشیںا ہمارا طرہ امتیاز ہے اور وطن فروشی محبوب ترین مشغلہ ۔دوسروں کی غلامی کرنا دربار گیری میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا ہماری قوم کی اکثریت کا شیوہ ہیں۔گوروں نے پٹرول سے جان چھڑانے کیلئے الیکٹرانک گاڑیاں اور جہاز ایجاد کرڈالے اور ہم آج بھی لڑائی میں سعودیہ اور ایران کی پالیسیوں کے کے پیچھے بھٹک رہے ہیں، ہمیں علم ہی نہیں کہ دشمن بھارت نے سی پیک، گوادراور بلوچستان کے مختلف منصوبوں میں کس قدر اپنا عمل دخل بڑھا دیا ہے تاکہ یہ منصوبے ہمیشہ تنازعات میں اُلجھے رہیں۔ غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں تباہی پھیل گئی۔ ہر طرف خون کے چھینٹے ہی نظر آرہے تھے۔مگر اس کی کس کو فکر تھی۔جمہوری حکومتوں نے ملک کے لیے تو کچھ نا کیا مگر خود کو اتنا مضبوط کر لیا کہ آنے والی نسلیں بھی اس مال غنیمت پر عیش کر سکتی ہیں۔سنا ہے جمہوریت بہترین انتقام ہوتی ہے۔مگر یہاں پر جمہوریت ہو یا آمریت دونوں عوام سے انتقام ہی لیتے ہیں۔عوام ان سے انتقام نہیں لے سکتے۔کیونکہ یہ سیاسی پنڈت جانتے ہیں کے عوام کو کیسے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ کشکول توڑنے کی بات کرنے والوں سے کشکول تو نہیں ٹوٹا مگر کشکول کا سائز کافی بڑا ہو گیا ہے۔جو بیرونی قرض مشرف 40.5 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے پر چھوڑ کر گئے تھے۔کشکول توڑنے کے دعویدار س کشکول کو بڑا کرکے 90ارب ڈالر تک لے جا چکے ہیں۔ جس رفتار سے یہ جمہوریت پھل پھول رہی ہے امید کی جاسکتی ہے کہ اگلی جمہوری حکومت آنے تک یہ قرض کہیں سے کہیں پہنچ جائے گا۔یوم تکبیر کے حوالے سے میں کوئی مایوسی نہیں پھیلانا چاہتا ۔مگر حال ہی میں امریکہ نے ہمارے ملک میں ڈرون حملہ کر کے ہماری سا لمیت اور خودمختاری کو ایک بار پھر سے چیلنج کیا ہے۔اور یہی نہیں بلکہ آنے والے دنوں میں مزید حملے کرنے کی بھی دھمکی دی گئی جس کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتااور یہ تب ہی ممکن ہو گا جب ہم ہر لحاظ سے خودمختار ہوں۔ایک طرف تو امریکہ ،آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سامنے کشکول بھی رکھیں اور پھر آنکھیں بھی دکھائیں ایسا ممکن نہیں۔بہت سارے ممالک قرض لیتے ہیں مگر وہ ملک و قوم کی بہتری کے لیے استعمال کرتے ہیں اور پھر وقت آنے پر اس قرض کو ادا بھی کرتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ یوم تکبیر کا دن قوم نے بڑی قربانیوں کے بعد دیکھا اللہ کا شکر ہے پاکستان آج ایٹمی قوت کا حامل ہے اس کے دشمن بالخصوص بھارت ہزار بار سوچنے پر مجبور ہے‘ لیکن اب وقت آگیا ہے حکمرانوں اور اشرافیہ کو پاکستان کے 22 کروڑ عوام کیلئے بھی سوچنا ہوگا۔ سویت یونین بھی دفاعی لحاظ سے مضبوط اور ناقابل تسخیر ملک تھا حکمران اور اشرافیہ عیش و آرام کی زندگی گزار رہے تھے دوسری طرف عوام معاشی بھوک و افلاس سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مررہے تھے۔آج اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہماری صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ حکمران مفاہمت کے نام پر جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر غریب عوام کا استحصال کررہے ہیں۔ تھر کے صحرا ہوں یا لاہور یا کوئٹہ کے ہسپتال معصوم بچے ناکافی غذا اور سہولیات کی وجہ سے ہلاک ہورہے ہیں۔ پانی بجلی ناپید ہوچکی ہیں کراچی سمیت ہر شہر دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ ازلی دشمن بھارت میر جعفراور میر صادقوں کے ذریعے سازشوں میں مصروف ہیں۔ اشرافیہ اپنی پرانی روش میں مبتلا ہے۔
آج کل میں حکومت پانچ سال پورے کرنے کے بعد ختم ہونے والی ہے، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ان پانچ سالوں میں ہم نے کیا کھویا اورکیا پایا ہے؟ حقیقی لیڈر شپ ملک کو بحران سے نکال سکتی ہے۔ بدنیتی پر مبنی حکومتیں خواہ سو سال بھی لگی رہیں ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتیں۔ وقت آگیا ہے حکمران اور اشرافیہ آج کے دن عہد کریں کہ پاکستان کو صرف آمدنی کا ذریعہ نہیں سجھی گے بلکہ پنا وطن اور ماں سمجھتے ہوئے اس کے احترام اور عقیدت میں اضافہ کریں گے۔ پاکستان کی ہر گلی کوچہ کو اپنی گلی تصور کریں ہر بیٹے بیٹی کو مریم‘ بلاول سمجھیں۔ ہسپتالوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جال پھیلائیں ۔ بلوچستان کے دور افتادہ گاو¿ں اور تھر میں بھی پانی اسی طرح میسر ہو جس طرح لاہور نوابشاہ کے محلات میں مکینوں کو میسر ہیں۔ایٹمی ٹیکنالوجی طشتری میں رکھ کر نہیں ملی شہید بھٹو کو پھانسی کا پھندہ چومنا پڑا تو دوسری طرف قوم نے پیٹ سے پتھر باندھ کر لازوال قربانیاں دیں۔ اللہ کا شکر ہے آج ہماری پاک فوج پاکستان کی ضرورتوں سے مکمل آگاہی رکھتی ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے حکمران اور اشرافیہ کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا اوراگر رویہ نہ بدلا تو یاد رکھو سوشل میڈیا کا دور ہے آنے والے الیکشن میں یہ نوجوانوں کا خاموش انقلاب تمہیں بہا لے جائے گا۔