قوموں کی زندگی میں بعض ایام اتنے منفرد اور تاریخی ہوتے ہیں کہ ان ایام کی اہمیت و حیثیت کا مقابلہ صدیاں مل کر بھی نہیں کر سکتیں ۔ جس دن کسی قوم کو عروج نصےب ہو تو وہ قوم اس دن پر فخر کرتی ہے۔ 28مئی ےوم تکبےر -ہماری قومی تارےخ کا یادگار اہم ترین دن ہے۔اس دن پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کر کے پوری امت مسلمہ کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا۔ پاکستان دنےا کی واحد مملکت ہے جو دےن اسلام کے نام پر 14اگست 1947ءکو معرضِ وجود مےں آئی۔ برصغےر کے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان‘ مال اور عزت کی قربانےاں دے کر پاکستان حاصل کےا۔ پوری دنےا کے کفار پاکستان کے قےام کے روزاول سے آج تک اس کےخلاف ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہےں۔ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت ہے جس نے وطن عزیز کے وجود کو آج تک کسی بھی پلےٹ فارم پر سچے دل سے قبول نہےں کےا بلکہ منافقانہ روےہ اپنائے رکھا ہے اور مسلسل سازشوں میں مصروف ہے۔ پاکستان کے ایٹمی قوت بن جانے کے بعد ملک کا دفاع ناقابل تسخیر ہو چکا ہے۔
28 مئی 1998ءکو جمعرات کا دن تھا اور سہ پہر 3 بجکر 16 منٹ پر چاغی کے پہاڑوں میں یکے بعد دیگرے پانچ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان نے بھارت کی برتری کا غرور خاک میں ملا دیا۔ ان دھماکوں کے ساتھ ہی پاکستان ایٹمی قوت رکھنے والا دنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ملک بن گیا۔ 11 مئی 1998ءکو بھارت نے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کی سلامتی اور آزادی کےلئے خطرات پیدا کر دیئے تھے اور علاقہ میں طاقت کا توازن تبدیل ہونے سے بھارت کے جارحانہ عزائم کی تکمیل کی راہ ہموار ہو گئی تھی۔یہ حقیقت ہے کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا واضح مقصد صرف اور صرف پاکستان کو خوفزدہ کرنا تھا اور ایک طاقتور ملک ہونے کا ثبوت دےکر پاکستان سمیت پورے خطے کے ممالک پر اپنی برتری جتانا تھا۔ اس کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا پاکستان کے بارے میں لہجہ ہی بدل گیا تھا۔ مگر خدا کو اس ارض وطن پر دشمنان اسلام کے عزائم کی کامیابی کسی صورت گوارا نہ تھی جس کے چپے چپے پر ابھی تک پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اللہ کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ بھارتی مذموم عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے پاکستانی عوام کے علاوہ عالم اسلام کے پاکستان دوست حلقوں کی طرف سے سخت دباﺅ ڈالا جارہا تھا کہ پاکستان بھی ایٹمی تجربہ کر کے بھارت کو منہ توڑ جواب دے۔پاکستان کے اس اقدام کو امریکہ اور یورپ کی تائید حاصل نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ امریکی صدر کلنٹن، برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور جاپانی وزیراعظم موتو نے پاکستان پر دباﺅڈالا کہ پاکستان ایٹمی دھماکہ نہ کرے ورنہ اس کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ تاہم اُس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے تمام تر دباﺅ،لالچ اور ترغیبات کو مسترد کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کر دیے۔
پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کےلئے جن عناصر نے حب الوطنی اور اسلام پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے تاریخی کردار ادا کیا‘ ان میں روزنامہ نوائے وقت کے معماراور سابق چیئرمین نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ مجید نظامی مرحوم کا نام سرفہرست ہے اور یہ بات دو ٹوک الفاظ میں کہی جاسکتی ہے کہ مجید نظامی مرحوم نے ہی حکومت وقت کو قومی سربلندی کی خاطر ٹکرا جانے والی پالیسی پر ثابت قدمی سے عمل پیرا ہونے کی بھرپور تلقین کی ۔ 21 مئی 1998ءکو وزیراعظم میاں نواز شریف نے وزیراعظم ہاﺅس اسلام آباد میں مدیران اخبارات و جرائد سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں وزیراعظم اور قومی اخبارات کے ایڈیٹروں کے مابین بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکہ کرنے کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ¿ خیال ہوا۔ دوران گفتگو دھماکہ کرنے کی صورت میں تمام ممکنہ پابندیوں اور ان کے نتیجے میں ملک کے غریب عوام کی اقتصادی مشکلات میں مزید اضافے کے حوالے سے بھی بحث و تمحیص ہوئی۔ بعض دانشور مدیران جرائد نے دبے لفظوں میں ایٹمی دھماکے کرنے کی مخالفت کی۔ ایسے ماحول میںایک توانا آواز مجید نظامی مرحوم کی تھی جنہوں نے بڑی جرا¿ت کے ساتھ وزیراعظم کے سامنے قومی امنگوں کی ترجمانی کی۔ انہوں نے صاف صاف لفظوں میں وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب! آپ ایٹمی دھماکہ کردیںورنہ عوام آپ کا دھماکہ کر دیں گے۔ مجید نظامی نے یہ بھی کہا کہ آپ ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں آپ کو دوہری وارننگ کا سامنا ہے۔ اگر دھماکہ کرتے ہیں تو ممکن ہے امریکہ آپ کا دھماکہ کر دے مگر قومی اور ملکی سالمیت اس امر کی متقاضی ہے کہ آپ ایٹمی دھماکہ کریں۔ اس بات کی تصدیق 28مئی 2014ءکو ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میںخطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے خود کی۔ میاں نواز شریف نے کہا ”ایٹمی دھماکے کرنے یا نہ کرنے کے معاملہ پر جناب ڈاکٹر مجید نظامی نے بھری محفل میں مجھے کہا تھاکہ اگر آپ نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی،میں آپ کا دھماکہ کردوں گا۔ان کی باتوں سے میری حوصلہ افزائی ہوئی اور ایٹمی دھماکے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں تذبذب کو دور کرنے میں جناب ڈاکٹر مجید نظامی کا بڑا ہاتھ تھا۔ہم نے ہمیشہ ان کے پیار کو یاد رکھا ہے اور یہ رشتہ اب تک جاری و ساری ہے“۔
مجید نظامی مرحوم نے 22 مئی 1998ءمیں اپنے اداریہ میں لکھا کہ ”پاکستان کی گومگوکی پالیسی کی وجہ سے بھارت اور مغربی دنیا کو اس وقت تک ہماری صلاحیت کے بارے میں یقین نہیں آسکتا جب تک تجربہ کر کے ہم بتا نہیں دیتے کہ ہماری ایٹمی صلاحیت بھارت سے کس قدر زیادہ اور ترقی یافتہ ہے“۔ 28 مئی 1998ءکو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نگرانی اور دوسرے قومی سائنسدانوںکی معیت میں جب میاںنواز شریف نے ایٹمی دھماکے کئے تو پورا ملک خوشی و مسرت سے جھوم اٹھا۔ عوام نے شکرانے کے نوافل ادا کئے۔ امریکہ نے وزیراعظم نواز شریف کو ایٹمی دھماکے کرنے سے روکنے کےلئے اپنی کوششیں آخری وقت تک جاری رکھیں مگر وزیراعظم نواز شریف نے ملکی سلامتی اور قومی خودمختاری پر کسی قسم کی سودے بازی سے صاف انکار کر دیا۔ دھماکے کرنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے ریڈیو اور ٹیلیویژن پر اپنی تاریخی تقریر کی اور انہوں نے بجا طور پر یہ بات کہی کہ ہم نے بھارت کا حساب بے باق کر دیا۔ بزدل دشمن ایٹمی شب خون نہیں مار سکتا۔ دفاعی پابندیاں لگیں تو پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا۔ اقتصادی پابندیاں لگیں تو بھی سرخرو ہوں گے۔ ایٹمی دھماکے کے بعد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے مجید نظامی کو ٹیلی فون پر مبارکباد دی اور انہیں نشان پاکستان دینے کا اعلان کیا۔ مجید نظامی نے پوچھا کہ مجھے یہ اعزاز کیوں دیا جارہا ہے تو وزیراعظم نے کہا کہ ایٹم بم بنانے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اور ایٹمی دھماکہ کروانے پر آپ کو نشان پاکستان کا اعزاز دیا جارہا ہے۔