یہ حقیقت ہے کہ 28مئی 1998ءکو ایٹمی دھماکوں کے بعد آج پاکستان ناقابل تسخیر ہو چکا ہے۔ مجھے یاد آرہے ہیں میاں محمد نواز شریف کے وہ الفاظ جو انھوں نے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد قوم کو خوشخبری سناتے ہوئے ادا کئے تھے۔
”گزشتہ دنوں بھارت نے جو ایٹمی تجربات کیے آج ہم نے اسکا حساب بھی چکا دیا ہے اور پانچ کامیاب اٹیمی تجربات کئے ہیں“۔ بھارت اس سے پہلے راجستھان کے مقام پر13-11 مئی 1998ءکو پانچ نیوکلیئر دھماکے کر چکا تھا اور اسکے بعد سارا دباﺅ پاکستان کی قیادت پر آگیا تھا۔
حکمرانوں کے لئے کشمکش کی صورتحال تھی۔ بلاشبہ ایسی صورتحال پاکستان کے لئے کھلا چیلنج تھی۔ جلد کوئی فیصلہ کرنا ضروری تھا۔ امتحان کی گھڑی آن پہنچی تھی، اگر آج بھارت کو جواب نہ دیا گیا تو آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی۔
ایسے بیانات قومی اخبارات میں اپوزیشن کی جانب سے مسلسل آ رہے تھے، پور ی قوم کا مطالبہ تھا کہ ایٹمی دھماکے ہونے چاہئیں۔ بھارت کو اسکی زبان میں جواب نہ دیا جاتا تو اسے پاکستان پر نفسیاتی برتری حاصل ہو جاتی۔ اس دوران صرف پندرہ دن میں امریکی صدر نے پانچ مرتبہ فون کر کے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کی کوشش بھی کی۔ امداد کیساتھ ساتھ دیگر ذرائع سے بھی مراعات کی پیشکش کی گئی مگر آخر کار 28مئی کی سہ پہر تین بجے بلوچستان کی پہاڑیوں میں یکے بعد دیگر ے ایک ہی دن میں پانچ ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو یہ پیغام دے دیا کہ اب پاکستان بھی ایٹمی قوت بن چکا ہے اور اسکا دفاع ناقابل تسخیر ہو چکا ہے۔
بھارت کو بھی پیغام مل گیا کہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔ ایٹمی دھماکوں کے جرات مندانہ اقدام کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
لوگوں نے شکرانے کے نوافل ادا کئے اور رب تعالی ٰ کا شکر ادا کیا۔ نواز شریف امت مسلمہ کے غیر اعلانیہ سپریم کمانڈر بن گئے۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں مگر عوام نے ان کو بھی قبول کیا۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے کرم کیا اوربھارت کے جارحانہ عزائم خاک میں مل گئے۔
انڈیا ایٹمی دھماکے کر کے جنوبی ایشیا میں چودھراہٹ کا جو خواب دیکھ رہا تھا وہ پاکستا ن کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعد چکنا چور ہو چکا تھا۔ اگلے سال اس دن کا نام یوم تکبیر رکھا گیا۔ اس وقت دنیا میں این پی ٹی (Treaty on the Non-Proliferation of Nuclear Weapons) کے تحت پانچ نیوکلیئر ممالک ہیں جن میں روس، امریکہ، فرانس، برطانیہ اور چین شامل ہیں جبکہ Non-NPT nuclear powers میں پاکستان، بھارت اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ اسرائیل نے ایٹمی صلاحیت رکھنے کے باوجود ابھی تک ایٹمی دھماکے نہیں کئے۔
اگر پاکستان اور روایتی دشمن بھارت کے درمیان ایٹمی صلاحیت کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے جتنے بھی میزائلوں کے تجربات کئے ہیں وہ سو فیصد کامیاب رہے جبکہ دوسری طرف ہندوستان کی میزائل ٹیکنالوجی جدید خطوط پر استوار نہیں۔ اکثر و بیشتر تجربات کی ناکامی کی خبریں عالمی میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ یقیناً پاکستان اس حوالے سے سبقت رکھتا ہے۔
ہندوستان میزائل ٹیکنالوجی میں ہمارا مقابلہ تو نہیں کرسکتا اس لئے فرار کی راہ اختیار کرتے ہوئے پاکستان کو اندرونی انتشار اور خلفشار میں مبتلا کرکے کمزور کرنا چاہتا ہے۔ اسکا ثبوت وطن عزیز میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں راءنیٹ ورک کا عمل دخل اور بلوچستان سے حاضرسروس انڈین نیوی آفیسر کلبھوشن کی گرفتاری ہے۔
کلبھوشن کے خلاف بھارت عالمی عدالت سے رجوع کر چکا ہے جو کہ اس بات کا اعتراف ہے کہ بھارت اپنے دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان کے امن کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ ماضی میں انسانیت کا علمبر دار امریکہ خود عالمی عدالت کے فیصلوں کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے اپنے مجرموںکو پھانسی کی سزائیں دیتا رہا ہے لہٰذا ہمیں بھی اپنے قومی مجرم کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنا چاہئے۔
ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ اگر ہماری جگہ پر بھارت ہوتا تو اب تک وہ پھانسی دے بھی چکا ہوتا۔ میں سمجھتا ہو ں کہ حکومت پاکستان نے کلبھوشن کے معاملے میں روایتی کمزوری دکھائی ہے۔ انڈیا ہمارا ازلی دشمن ہے اور وہ مسلسل پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لئے خطرہ بنا ہو ا ہے۔کبھی سی پیک کے خلاف کھلم کھلا دھمکی آمیز رویہ اختیار کر تے ہوئے اقتصادی راہداری کو نشانہ بنا رہا ہے تو کبھی تما م سفارتی آداب کو نظراندازکر تے ہوئے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع خالی نہیں جانے دیتا۔ مودی سرکار کلبھوشن کی گرفتاری اور سزا پر بوکھلاہٹ کا شکار نظر آرہی ہے۔
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو 1998والے جذبہ کو دوہراتے ہوئے ملکی مفاد کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر آنا اورآپس میں کوآرڈینیشن کو بہتر بنانا ہو گا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی عدالت کو انڈین دہشت گرد کی سزا تو نظر آگئی مگر بنگلہ دیش میں پاکستان کی محبت کی پاداش میں دی جانے والی پھانسیاں نظر نہیں آئیں، کشمیر میں بھارتی سات لاکھ فوج کے مظالم، بربریت اور کالے قوانین کا اطلاق آنکھوں سے اوجھل کیوں ہے؟ فلسطین، شام اور برما میں معصوم بچوں سمیت خواتین کے قتل عام پر مجرمانہ خاموشی کس لئے؟ اور مصر میں جمہوریت پر شب خون مارا گیا تب عالمی عدالت کا ضمیر کیوں سوتا رہا تھا؟۔