وفاقی ملازمین کے لیے پرائم منسٹر کی فراخدلی

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اچانک یہ خوش کن اعلان کیا کہ وفاقی ملازمین کو اس ماہ کی تنخواہ کے ساتھ تین اضافی تنخواہیں دی جائیں گی۔ وفاقی ملازمین اور ان کے اہل و عیال تو دعائیں دے رہے ہوں گے کہ ایسی حکومت بار بار آئے۔ مسلم لیگ (ن) کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ وہ سرکاری ملازمیں کو زیادہ مراعات دینے کے حق میں نہیں، بس روایتی طور پر ہر بجٹ میں سالانہ دس فیصد تنخواہ بڑھا دیتی ہے اور قصہ ختم جبکہ پیپلزپارٹی نے اپنے حالیہ دور حکومت میں پچاس فی صد اور پچیس فیصد تنخواہ بڑھا کر سرکاری ملازمین کی اشک شوئی کی کوشش کی۔
پچھلے چند دنوں سے مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ بڑے بڑے انکشافات کرتے رہیں گے، اللہ کرے ان کی جماعت کی حکومت کے خاتمے میں اب جو چند روز رہ گئے ہیں، ان میں وہ وزیراعظم عباسی کی زبان سے ایسے دو چار مزید اعلانات کروا دیں اور اگلے الیکشن میں اپنی کامیابی کو سو فی صد یقینی بنا لیں۔ میرے خیال میں سرکاری ملازمین کے ساتھ ساتھ زراعت پیشہ طبقہ پس ماندگی کا شکار ہے، سخت بدحالی ہے اور اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ کاش ! نواز شریف کا ذہن رسا ملکی کاشتکاروں کے لئے بھی ایک انقلابی اعلان کر ڈالے۔ بڑے سرمایہ کاروں پر ایمنسٹی اسکیم کی شکل میں لطف و کرم کی بارش کر دی گئی ہے۔ مگر ہماری روزی روٹی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا کاشتکار مفلوک الحال اور گوناں گوں پریشانیوں کا شکار ہے۔ جناب وزیراعظم ان کے لئے بھی ایک بڑا اعلان کریں اور صرف کاشتکاروںکو ہی نہیں ملکی معیشت کو بھی ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کا اہتمام کر ڈالیں۔
وفاقی ملازمین اگرچہ تعداد میں تھوڑے ہیں‘ لیکن ہر سرکاری ملازم کی طرح وہ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ سکولوں کی فیسیں آسمانوں سے باتیں کرتی ہیں۔ اشیائے خوردو نوش کو ہاتھ لگاتے ہوئے چار سو چالیس ووٹ کا کرنٹ محسوس ہوتا ہے۔ سفری سہولتیں مہنگی ہیں، اور سرد گرم موسم میں میلوں پیدل چل کر دفاتر پہنچنا محال ہے۔ ہسپتالوں میں جانے کی مجبوری آن پڑے تو گھر اور پلاٹ فروخت کرنے کی نوبت آ جاتی ہے۔ وزیر اعظم نے وقتی طور پر وفاقی ملازمین کی دل جوئی تو کر دی ہے مگردو طبقے ایسے ہیں جو نجانے کیوںنظر انداز ہو گئے۔ ایک تو وفاقی پنشنرز جو وزیر اعظم ہی کی دریا دلی کی طرف دیکھ رہے ہیں اور دوسرے چاروں صوبوں کے ملازمیں جن میں سے ابھی تک پنجاب نے تھوڑی بہت امداد کا اعلان کیا ہے جو سمند ر سے ملے پیاسے کو شبنم کے مصداق ہے۔ میاں شہباز شریف پلوں، انڈر پاسوں، میٹرو، اورنج ٹرین اور بجلی گھروں پر دل کھول کر خرچ کرتے ہیں، انہیں چاہیئے کہ وہ اپنے فرمان پر نظرثانی فرمائیں اور جس طرح وزیراعظم نے اضافی تین تنخواہیں ادا کرنے کا عندیہ دیا ہے، وہ بھی دل بڑا کر کے اتناہی بڑا ا علان کر دیں اور صوبائی پنشنرز کو بھی اس لطف و کرم میں حصہ دار بنائیں۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اسے وفاقی پول سے سب سے بڑی رقم ملتی ہے جو ظاہر ہے ترقیاتی سکیموں پر تو خرچ ہو رہی ہے مگر کبھی کبھار اسے انسانوں پر بھی خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں اور رمضان المبارک میں تو ایسا اقدام سات سو گنا ثواب کا بھی حق دار ٹھہراتا ہے۔
دوسرے صوبوں کے ملازمین کی مشکلات بھی وہی ہیں جو وفاقی اور پنجاب کے ملازمیں کی ہیں، ان صوبوں کا خزانہ بھی لبالب بھرا پڑا ہے کیونکہ وہاں اسے کسی ترقیاتی پراجیکٹ پر خرچ ہی نہیں کیا گیا، جو پیسہ مالی سال کے آخر تک خرچ نہیں ہو گا ، وہ اگلے سال تو دستیاب نہیں ہو سکتا، اس لئے بہتر یہ ہے کہ اسے صوبائی حکومتیں اپنے ملازمین کی خوش حالی پر صرف کر لیں۔ آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام والی بات ہے۔ ملازمین بھی خوش اور اللہ بھی خوش کہ صوبائی حکومتوں نے حق داروں کو بھی جودو سخا کا مستحق سمجھا۔سندھ میں تو زرداری صاحب اکیلے اپنے اکاﺅنٹ سے اتنی بڑی رقم دان کر سکتے ہیں۔ سوئس اکاﺅنٹوں میں پڑا ہوا سرمایہ گل سڑ جائے گا مگر مخلوق خدا پر خرچ کیا جانے والا سرمایہ دوگنا تگنا بڑھتا چلا جائے گا اورآخرت میں کسی کام ا ٓ جائے گا۔
میں ایک بار پھر پنشنرز صاحبان کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں، مجھے عملی صحافت کے دوران ہر تیسرا فون کسی نہ کسی پنشنر کی طرف سے موصول ہوتا ہے جو چیخ چیخ کر اپنا دکھ درد سناتے ہیں کہ میرے قلم کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ یہ پنشنرز بہت برے حالوںمیں ہیں ، کوئی بستر پر مفلوج پڑے ہیں، کسی کی بیٹیاں شادی کے انتظار میں بوڑھی ہو گئی ہیں، کوئی فاقوں سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہا ہے، بدقسمتی سے ہم نے کوئی سوشل سیکورٹی کا فول پروف نظام بھی نہیں اپنایا، غیر مسلموں نے ہمارے ہی دور خلافت سے چربہ کر کے اپنے ہاں نافذ کر رکھا ہے اور ان کی بوڑھی نسل اس طرح بے یارو مدد گار نہیں جیسے ہم کلمہ گو مسلمانوں کے دیس پاکستان میں ہے۔ ہم نے پاکستان ایک جدید اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت کے نمونے کے طور پر تشکیل دیا تھا مگر ہم اپنے اس عہد کو بھول گئے جو ہم نے اپنے اللہ اور اپنے ووٹروں کے ساتھ کیا تھا۔ ہمیں یہ بھولاہوا سبق یاد کرنا چاہیے اور پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک فلاحی مملکت کا نمونہ بنانا چاہئے۔ اس سلسلے میں پہلا قدم ہماری حکومتوں کو اٹھانا ہے جن کے تصرف میں قومی اور صوبائی خزانے کے ڈھیر ہیں ، وہ اس کا عشر عشیر بھی پنشنروں اور بزرگوں پر خرچ کر دیں تو میںیقین دلاتا ہوں کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی، ہمارے بوڑھے، بیمار، لاچار، قریب المرگ لوگ دل سے ڈھیروں دعائیں دیں گے، ان دعاﺅں کا بڑا حصہ تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے حصے میں چلا گیا، باقی کاحصہ بھی وہ پنشنروں کے لئے مساوی مراعات کا اعلان کر کے لوٹ لیں، اور صوبے بھی ان کی تقلید کرنے میں بسرعت اقدامات کریں کہ ان کی حکومتیں اب چند دن کی مہمان ہیں۔
میاںنواز شریف !کچھ آپ ہی بڑا اعلان کر دیں اور اپنے وزیر اعظم سے کہیں کہ وہ ملک میں مالی ایمر جنسی نافذ کر کے صوبوں کے ملازمین اور پنشنرز کے لئے بھی تین اضافی تنخواہوں کا اعلان کر دیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ میری یہ صدا بصحرا ثابت نہیں ہو گی۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن