مخالفین مجھے شوباز کہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ میں سڑکیں اور پل بناتا ہوں او رمجھے تعلیم اور علاج سے کوئی غرض نہیں۔ عمران نیازی دعوے کرتے تھے کہ ہم کے پی کے میں جنگلا بس اور سڑکیں نہیں بنائیں گے بلکہ تعلیم اور صحت کے ادارے بنائیں گے۔ لیکن نیازی صاحب نے کے پی کے میں کوئی اچھی میڈیکل یونیورسٹی، سٹیٹ آف دی آرٹ پتھالوجی لیب اور نیا ہسپتال اور کالج نہیں بنایا۔ پانچویں سال انہیں جنگلا بس کی یاد آئی تو اس منصوبے کے نام پر پشاور شہر کو اکھاڑ کر رکھ دیا۔ نیازی صاحب سے میٹرو بس تو نہیں بنی لیکن انہو ں نے کے پی کے کے عوام کی بس ضرور کرا دی ہے۔ نیازی صاحب مجھے یہ کہتے ہیں کہ آپ نوازشریف سے زیادہ خطرنا ک ہیں۔ ہاں میں اس لئے خطرناک ہوں کہ میں یتیموں، بیواں اور عام آدمی کیلئے ہسپتال اور تعلیمی ادارے بناتا ہوں۔ نیازی صاحب میں نے آپ کیلئے پنجاب کے 36 اضلاع میں کوچنگ کا اہتمام کیا ہے۔ آپ یہاں آئیں ہم آپ کو سکھائیں گے کہ ہسپتال، تعلیمی ادارے اور بجلی کے منصوبے کیسے لگائے جاتے ہیں۔کاش نیازی صاحب اس قابل ہوتے کہ وہ کہہ سکتے کہ میں پشاورکو لاہور بناو¿ں گا لیکن انہوں نے پشاورکو برباد کرکے رکھ دیاہے۔ اسی طرح قومیں بنتی ہیں۔ اگر ہم اسی ولولے، جذبے، محنت، امانت اور دیانت سے کام کرتے رہے تو انشاءاللہ 5 سال بعد پاکستان مودی کے ہندوستان سے آگے نکل جائے گا۔ میاں شہباز شریف نے بڑا دعویٰ شاید وزارت اعظمیٰ کی امید میں کیا ہے۔ شو باز ہر سیاست دان ہوتا ہے۔ سب نے سوشل میڈیا پر ٹیم بٹھا رکھی ہے جو اپنے لیڈر قائد رہنما امیدوار کے کھانسی چھینک کی کارروائی بھی پوسٹ کرنے پر فائز ہے۔ عمران خان کی شو بازیاں شہباز شریف سے متاثر معلوم ہوتی ہیں۔ معمولی نقل و حرکت کا پروپیگنڈہ بھی بڑھ چڑھ کرکیا جاتا ہو۔ پنجاب میں جو کام ہوئے ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے مخالفین بھی معترف ہیں۔ عوامی حلقوں میں یہ رائے بھی عام ہے کہ اگلے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں اگر شہباز شریف کو وزارت اعظمیٰ مل جاتی ہے تو ملک بھر میں ترقیاتی منصوبوں کی مزید امید رکھی جا سکتی ہے۔ مخالفین دونوں اطراف اپنے قائدین کی وزارت اعظمیٰ کا خواب سجائے بیٹھے ہیں۔ نہ عمران خان کبھی وزیراعظم بن سکے نہ شہباز شریف۔ اگلا الیکشن شہباز شریف اور عمران خان کے درمیان ہے۔ پنجاب میں دنگل ہوگا۔ بات تھپڑوں سے شروع ہوئی ہے گولیوں تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ عمران خان نے وزارت اعظمیٰ کا ذہن بنا لیا ہے۔ عملیات بھی جاری ہیں اور لوٹوں کی بارش بھی مہربان ہے۔ شہباز شریف کے پاس منصوبے ہیں اور عمران خان کے پاس دعوے۔ نوازشریف جو الیکشن کی جیت ہار سے زیادہ اپنی تاریخ رقم کرنے کی فکر میں ہیں، ان کے بیانات پارٹی کے لئے انتخابی مشکلات کا باعث بنیں گے۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ تین بار وزارت اعظمیٰ کے مزے لوٹنے والے جب شہباز شریف کی باری آئی تو قومی راز فاش کرنے لگے؟ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے؟ نواز شریف اپنی تاریخ بنانے میں مصروف ہیں۔ موصوف کرپشن چارجز کی تاریخ نہیں بننا چاہتے، اسٹبلشمنٹ کے سامنے ڈٹ جانے والے بھٹو بننا چاہتے ہیں۔ لیکن بھٹو کے قریبی فوجی بھائی بھٹو کی دلیری کا پول کھول گئے ہیں اور نواز شریف کی دلیری بھی آف ریکارڈ سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ عوام کے سامنے تو سب شیر اور تیر بن جاتے ہیں۔ بھٹو لاچاری میں بھی ملک کے خلاف راز نہیں کھول سکے یا شاید الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میسر نہ تھا یا ضیا الحق تاریخ کا طاقتور آمر گزرا ہے۔ بھٹو کا آمر نواز شریف کا روحانی قائد تھا۔ نواز شریف چونکہ اسٹبلشمنٹ کے پرانے لاڈلے مشہور ہیں اس لئے ان کا دل دکھا ہے۔ میاں صاحب کے رازوں کو عرف عام میں دھمکی اور بلیک میلنگ بھی کہا جا سکتا ہے۔ تمام صورتحال کے باوجود شریف خاندان کے ساتھ بھٹو خاندان جیسی تاریخ نہیں دہرائی جا رہی۔ راز کھولنے کی مکمل آزادی ہے۔ میاں صاحب نے بے بسی میں اپنے آخری پتے بھی شو کر دئیے ہیں۔ جب راز مکمل ہو جائیں گے تو شاید تاریخ بھی رقم ہو جائے ؟ فی الحال تو میاں صاحب بیٹی کے کٹہرے میں کھڑے ہونے پر برہم ہیں۔ بیٹی کو سیاست میں لائے ہیں تو بے نظیر بھٹو کے مصائب یاد کر کے غم کو ہلکا کرنا بھی سیکھیں۔ ادھر پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا نے کہا ہے کہ آج نوازشریف کہتے ہیں کہ ہم سے ظلم ہورہا ہے، انکے ساتھ تو کچھ ہوا ہی نہیں ہے، مریم نوازکی توپلکیں بھی نہیں بگڑیں تو پھر ظلم کیسا؟ انہوں نے کہا کہ نوازشریف سچ نہیں بول رہے، سب کو پتہ ہے کہ ان کو نااہل ہی اسلئے کیا گیا ہے کہ یہ صادق اور امین نہیں رہے۔ نوازشریف اب اس نہج پر آگئے ہیں کہ میں تو ڈوب ہی رہا ہوں اپنے ساتھ اور لوگوں کو بھی لے کر ڈوبوں، چاہے اس سے ملک کا جتنا بھی نقصان ہوکوئی فکر نہیں۔ مجھ پر ڈبل مرڈر اور اسلحہ سپلائی کا کیس بنادیا گیا تھا۔ مجھے زبردستی میرے گھر سے اٹھا کر لے گئے، میرے والدین روتے رہے، میں جب کٹہرے میں کھڑی تھی تو میں نے عدالت میں کہا کہ مجھے اٹھا کر لائے ہیں اور بڑی مشکل سے مجھے شال لینے دی گئی ہے، میں کٹہرے میں تھی اورمیرے والد رو رہے تھے، ججز نے فیصلہ سنائے بغیر ہی مجھے جیل میں بھیج دیا۔ مجھے پولیس کی گاڑی میں مردوں کیساتھ بٹھا کر لایا جاتاتھا، لیکن یہ تو پروٹوکول میں آتے جاتے ہیں، انکا تو کچھ بگڑا ہی نہیں۔ عمران خان کو بہت کچھ سیکھنا ہوگا ورنہ ان کیساتھ بھی ایسے ہی ہوگا جیسے نوازشریف سے ہو رہا ہے۔ عمران خان کے ساتھ کیا ہوگا اس کی ان کو پرواہ نہیں، بس ایک مرتبہ ان کے نام کے ساتھ وزیر اعظم لگنا چاہئے۔ اگلا الیکشن میاں شہباز شریف اور عمران خان کے بیچ ہے۔ مقابلہ سخت اور خطرناک ہے۔
عمران بمقابلہ شہباز
May 28, 2018