اسلام آباد(سہیل عبدالناصر)پاکستان کے ایٹمی تجربات کو دو ہایئوں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اس سفر کے دوران پاکستان نے معجزاتی کامیابیاں حاصل کیں جن کے نتیجہ میں پاکستان کو زمین، فضاء اور سمندر سے ایٹمی ہتھیار داغنے اور ایٹمی حملہ کی صورت میں جوابی ایٹمی کارروائی کرنے کی مکمل استعداد کا حامل ہے۔28 مئی کے جوہری تجربات سے پہلے پاکستان نے اس مشکل راہ پر جو سفر شروع کیا تھا، ایٹمی تجربات کے بعد بھی وہ سلسلہ جاری رہا ۔ اعلانیہ ایٹمی طاقت بننے کے بعد پاکستان نے مکمل ایٹمی ریاست بننے کا عمل بے مثال سرعت سے مکمل کیا اور ان اکیس برسوں کے دوران ایٹمی اور میزائل پروگرام کا نگہبان ادارہ’’ نیشنل کمانڈ اتھارٹی‘‘ تشکیل دیا گیا۔ حساس ٹیکنالوجی کے برآمدی کنٹرول کو یقینی بنانے کیلئے جامع قانون سازی کی گئی۔ یورینئم کے بعد پلوٹونیئم روٹ حاصل کیا گیا جس کی بدولت پاکستان چھوٹے ایٹمی ہتھیار یعنی ’ٹیکٹیکل ویپن‘‘ بنانے میں کامیاب ہوا جب کہ ان ہتھیاروں کو داغنے کیلئے فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کے علاوہ درجن بھر اقسام کا ایک متنوع میزائل نظام تیار کیا گیا جس میں ٹھوس اور مائع ایندھن کے بیلسٹک میزائلوں کے علاوہ زمین ، فضاء اور سمندر کے اندر سے داغے جانے والے کروز میزائل تیار کئے گئے جس کے ساتھ ہی پاکستان سہ سمتی ایٹمی حملہ کرنے اور اسی بنیاد پر جوابی ایٹمی حملہ کرنے کے قابل ہوا۔ جس کے بعد مزید پیشرفت کرتے ہوئے اس ایٹمی سفر میں کم از کم ایٹمی ڈیٹرنس‘‘ سے ایک قدم آگے بڑھ کر ’’ فل سپیکٹرم ڈیٹرنس ‘‘ کی منزل تک پہنچا۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور ایٹمی ہتھیاروں کی سیکورٹی کیلئے متعدد حصار قائم کئے گئے۔ پاکستان کے پاس اگر چھوٹے ایٹمی ہتھیار موجود ہیں تو وہ بھی سٹریٹجک کنٹرول میں ہیں۔ سابق آمر پرویز مشرف نے اپنی کئی خرابیوں کے باووجود نیشنل کمانڈ اتھارٹی اور ایس پی ڈی کی شکل میں پاکستان کو ایک مکمل ایٹمی تنظیم بنا کر دی،ایٹمی طاقت کو ادارہ جاتی شکل دی، مستقبل کی منصوبہ بندی کی۔