پاکستان کا قیام معجزہ سے کم نہیں۔ جس سے اپنے پرائے سب حیران ہیں۔ پاکستان دنیا کے نقشے پر دوسری بڑی نظریاتی ریاست ہے لیکن مجبوراً اس حقیقت کو تسلیم کرنے والے کانگریسی رہنمائوں نے انگریزوں سے مل کر اسے کھوکھلا کرنے کی بنیاد بھی رکھ دی اور ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست کشمیر، جہاں مسلمان اکثریت میں تھے۔ایک سازش کے ذریعے قبضہ کر لیا گیا۔ قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان وجود میں آ گیا لیکن ہندولیڈر شپ سے شروع دن سے ہی یہ برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ قائد اعظم کی زندگی نے وفا نہ کی اور بعد ازاں کمزور پالیسیوں اور اقتدار پسند قیادتوں اور فوجی حکمرانوں کے شب خون مارنے کی وجہ سے مزید کمزوریاں اور سازشیں ہوتی رہیں۔ 1965ء کی جنگ کی صورت اور بعد ازاں 1971ء میں پاکستان کو دولخت کر کے ایسا چْھرا گھونپا گیا جس نے ہر محب وطن کو رلا دیا۔ اس دن سے پاکستانیوں کے دل میں اللہ تعالیٰ نے جذبہ اجاگر کر دیا تھا کہ ہم ایٹمی قوت ہوتے تو بھارت کبھی جنگ کرنے اور پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے کی جرأت نہ کرتا۔
1974ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کے خلاف اپنے مذموم عزائم کا اظہار کر دیا تھا۔ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا لیکن بھارت کے مذموم ارادوں کے پیش نظر باوقار زندہ رہنے کے لئے پاکستان کا ایٹمی قوت بننا مجبوری بن گیا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد ایٹمی صلاحیتوں کے حصول کے لئے منصوبہ بنایا، پھر اس پر عمل شروع کر دیا اور یہ اعلان کر کے حیران کر دیا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔اس سلسلے میں پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو پہلے ہی یہ خواہش رکھتے تھے اور بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے خود ہی ذوالفقار علی بھٹو سے رابطہ کیا اور اپنا ارادہ بتایا کہ میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی اہلیت رکھتا ہوںتو بھٹو نے انہیں ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ڈاکٹر خان نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے انتہائی مشکل کو ممکن کر دکھایا۔ بھٹو کے بعد ضیاء الحق دور میں بھی اس منصوبے پر کام جاری رہا۔ محترمہ بینظیر بھٹو اور نوازشریف کے دورِ حکومت میں معاملات پائیہ تکمیل تک پہنچے اور یہ اعزاز میاں محمد نوازشریف کو بطور وزیر اعظم حاصل ہوا۔ 28مئی 1998ء کو چاغی کے مقام پر ایٹمی بٹن دبا کر دھماکے کر دیئے گئے۔ بلا شبہ یہ سالہا سال کی جدوجہد کا ثمر ہے۔
میاں نوازشریف پر جنوبی ایشیاء اور عالمی سطح پر دھماکے نہ کرنے کے لئے شدید دبائو تھا۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے ڈھیروں اسلحہ کے ساتھ 5 ارب ڈالر دینے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے ٹھکرا دی۔ اس صورتحال اور ایٹمی ملک بنانے کے لئے سب اداروں کے ساتھ سب سے بڑی قوت محسن صحافت جناب مجید نظامی تھے جنہوں نے ایڈیٹروں کی بھری محفل میں کہا کہ میاں صاحب ایٹمی دھماکے کریں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کرے گی اور میں بھی آپ کا دھماکہ کر دونگا۔ میاں نوازشریف نے جو کہ شش و پنج میں پڑے ہوئے تھے۔ نظامی صاحب کے اس اعلان پر ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مجید نظامی جو ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن انہوں نے پوری قوم اور میاں نوازشریف کا حوصلہ بڑھایا۔ بلا شبہ آج کا دن قوم کی زندگی میں ایک بڑا اہم اور خوشگوار دن ہے جس میں ملک کا مستقبل محفوظ اور قوم کو دنیا بھر میں سرخرو ہوئی۔
بھارت سمجھ چکا ہے کہ پاکستان پر براہ راست حملہ یا جنگ کرنا اب بہت مشکل ہے۔ جیسا کہ جنرل مشرف کے زمانے میں بھارت نے پاکستان کی ورکنگ بائونڈری اور کنٹرول لائن پر ایک سال طویل فوجی دبائو رکھا لیکن پاکستان پر حملے کی جرأت نہ کر سکا۔ اب بھی ایسا کرنے کے لئے ہزار بار سوچے گا۔یہ سارا کریڈٹ پاکستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو جاتا ہے سب سے بڑا کریڈٹ میاں نوازشریف کو جاتا ہے۔ جو کسی کے دبائو میں نہ آئے اور وہ کام کر ڈالا جسے ملک وقوم کے بہتر ین مفاد میں جانا اور اس سے بھی بڑا کریڈٹ نوائے وقت اور ان کے مدیر مرحوم مجید نظامی کو جاتا ہے جنہوں نے وزیراعظم نواز شریف سے وہ کام کر ایا جس نے پاکستان کی سالمیت کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا۔ افسوس بھارت نے پاکستان کو ناکام بنانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے شروع کر دیئے ہیں۔ تا کہ اسے اندرونی طور پر کمزور کیا جا سکے۔ کل بھوشن کی شکل میں بہت بڑا جاسوسی نیٹ ورک پکڑا گیا۔ جس کے کارندے آج بھی پاک دھرتی کو کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اندرون ملک تخریب کاری اور پروپیگنڈے کے پیچھے بھارت ہی ہے۔ اسکے سینکڑوں جاسوس اور تخریب کار افغانستان میں بھارتی قونضل خانوں سے تربیت لے کر ملک کو عدم استحکام سے دوچار کر رہے ہیں۔ جس بہادری اور تعاون کا مظاہرہ ایٹمی قوت بننے کے لئے کیا گیا تھا اس طرح کی مضبوط قوت ارادی والی پالیسی سے ہی مسئلہ کشمیر کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں الیکشن میں وعدے تو کرتی ہیں لیکن مسئلہ کشمیر پر عملی کام نہ ہونے کے برابر ہے حالانکہ قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ہے۔ اس کے بغیر آزاد ، خود مختار اور مستحکم پاکستان کا تصور ممکن ہی نہیں۔ ملک کے اندرونی حالات اور معاملات خلفشار کا شکار ہیں جو ملک کے لئے زہر قاتل ہیں۔قومی اداروں ، عدلیہ اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کو پھونک پھونک کر چلنا ہو گا۔ آپس میں فتح اور شکست کا انداز تبدیل کرنا ہو گا۔