آج 28مئی ہے، ہر سال یہ دن بڑے جوش خروش سے منایا جاتا ہے مگرآج کرونا کے باعث یوم تکبیر شایان شان طریقے سے منانے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ سادگی سے یوم تکیر منایا جا رہا ہے۔ یہ پاکستان کی عسکری تاریخ کا اہم ترین دن ہے جب اس وقت کے چیف ایگزیکٹو محمد نواز شریف نے عالمی دبائو کی پرواء کئے بغیر پاکستان کو ایٹمی کلب کا ساتواں ممبر بنا دیا۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے انہیں اس کام سے باز رکھنے کے لئے پانچ ٹیلی فون کالز کیں لیکن انہوں نے بل کلنٹن کی کالز کو نظر انداز کر دیا اور 5ارب ڈالر کی امداد کی پیشکش کو مسترد کرکے بھارت کے 3ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 5دھماکے کر کے پاکستان کو ’’نیوکلیئر پاور‘‘ بنا دیا اگرچہ پاکستان کو نیوکلیئر پاور بنانے کا فیصلہ اس روز ہی کر دیا گیا تھا جب 1974ء میں بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تھا۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی سوچ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ذہن میں آئی لیکن وہ کہوٹہ پلانٹ کے لئے ابتدائی کام ہی کر سکے اور پھانسی کے تختہ پر چڑھ کر پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ کے لئے ’’امر ‘‘ ہو گئے لیکن ایٹمی قوت بننے کا سارا کام جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوا ۔
میاں نواز شریف کی کابینہ کے بیشتر ارکان میاں نواز شریف کو عالمی پابندیوں سے ڈراتے رہے لیکن معمار نوائے وقت جناب مجید نظامی نے نہ صرف میاں نواز شریف کا حوصلہ بڑھا یا بلکہ ایٹمی دھماکے کے لئے ملک میں ماحول بنایا ۔ 27مئی1998ء میری صحافتی زندگی کا اہم ترین دن ہے جب میں نے اور میرے ساتھی دفاعی رپورٹر سہیل عبد الناصر نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے ’’بانی ‘‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ان کے ہیڈ کوارٹر میں ملاقات کے بعد ایک روز قبل ’’ایٹمی دھماکہ‘‘ کی مشترکہ خصوصی سٹوری فائل کی تھی۔ ہاتھ سے لکھی ہوئی خبر کا مسودہ آج بھی میرے آرکائیوز میں محفوظ ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر عبد القدیر خان کے دست راست ڈاکٹر فاروق کو یاد نہ کرنا زیادتی ہو گی جو آج بھی ڈاکٹر خان کے ساتھ کام کرنے کے جرم میں اپنے گھر پر ’’نظر بند ‘‘ ہیں۔ انہیں آزاد فضائوں میں گھومنے کی اجازت نہیں ۔ میری ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے 1984-85سے یاد اللہ ہے جب انہوں نے کولڈ ٹیسٹ کر کے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا دیا تھا۔ قبل اس کے کہ کوئی اور نام نہاد سائنسدان پاکستان کو ایٹمی قوت بنا نے کا کریڈٹ حاصل کرلے ڈاکٹر عبد القدیر خان نے نوائے وقت کو انٹرویو دے کر پوری دنیا کو پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا یقین دلا دیا۔
کسی ملک کے ایٹمی قوت بننے کے بارے میں ’’کولڈ ٹیسٹ ‘‘ کافی ہوتا ہے لیکن جب تک ’’دھماکہ‘‘ نہ کیا جائے کسی کو یقین نہیں آتا ۔راقم السطور نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کے اعزاز میں راولپنڈی پریس کلب میں ’’تقریب پذیرائی‘‘ منعقد کر کے ڈاکٹر خان کی خدمات کا پوری قوم سے اعتراف کرایا۔ڈاکٹر عبد القدیر خان نے مجھے اور سہیل عبدالناصر کو 27مئی1998ء کی سہ پہر ہیڈکوارٹر میں اپنے دفتر بلوا یا جہاں انہوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ 28مئی1998ء کو کئے جانے والے ایٹمی دھماکوں کے پیش نظر پاکستان بھارت سرحد پر’’ ایٹمی وار ہیڈ ‘‘ نصب کر دئیے گئے ہیں ۔ وہاں انہوں نے بتایا کہ اگر ایٹمی دھماکوں کے وقت اسرائیل بھارت کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا تو پاکستان اسے ایٹمی جنگ تصور کرے گا۔ اس حماقت پر بھارت کا اپنا وجود صفحہ ہستی سے مٹ سکتا تھا ۔ میں نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو اس روز جتنا مضطرب پایا شاید ہی انہیں پوری زندگی میں اس قدر پریشان دیکھا ہو ۔ انہیں بتایا گیا کہ 28مئی1998ء کی سہ پہر3بجکر42منٹ پر ایٹمی دھماکے کئے جا رہے ہیں لیکن وہ اس وقت ’’چاغی‘‘ کے اس پہاڑ پر ایٹمی توانائی کمیشن کے ان سائنسدانوں کے ہمراہ موجود نہیں ہوں گے جو ان کی ساری زندگی کی محنت کا کریڈٹ ایٹمی توانائی کمیشن کے سر تھوپنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن پاکستان کی عسکری قیادت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو چاغی پہنچانے کے لئے خصوصی طیارہ فراہم کر دیا ۔ساری دنیا جانتی ہے یورینیم کی95فیصد افزودگی کا سہرا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سر ہے۔ اگر مطلوبہ معیار کے مطابق یورینیم ہی افزودہ نہ ہوتا تو ایٹم بم کیسے بنایا جا سکتا ؟ لہٰذا ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی جس قدر خدمات ہیں اس سے کہیں زیادہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ہیں جو 1976ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی درخواست پر ہالینڈ میں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آگئے اور دنوں میں پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا خواب شرمندہ تعبیر کر دیا۔
میاں نواز شریف کے دو ادوار میں ڈاکٹر خان ایٹمی پروگرام سے وابستہ رہے لیکن ان کی آپس میں کبھی نہیں بنی تاہم ایٹمی پروگرام کے حوالے سے میاں نواز شریف ڈاکٹر خان کی خدمات کے معترف رہے ہیں۔ ڈاکٹر خان جنرل پرویز مشرف کے زیر عتاب رہے ہیں ۔ ان کیلئے جنرل مشرف کا دور بھاری تھا ۔ ڈاکٹر خان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ کسی دشمن کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا ۔ڈاکٹر خان ایک سخت جان سائنسدان ہیں جو43سال قبل ہالینڈ میں عیش و عشرت کی زندگی ترک کر کے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا مشن لے کر پاکستان آگئے انہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت تو بنا دیا لیکن اس کا انہیں صلہ یہ ملا کہ ان سے نیوکلر پروگرام ایکسپورٹ کرنے کے ’’جرم ‘‘ کا اعتراف کرا یاگیا اور سیکیورٹی کے نام پر ہل سائیڈ روڈ پر اپنی رہائش گاہ پر قید کر دیا گیا۔ ایک ایسے شخص جس نے اپنی پوری زندگی پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے لئے مختص کر دی پھر اس نے پاکستان کی خاطر دوسروں کے ’’جرائم ‘‘ اپنے سر لے لئے۔پاکستان کو ایٹمی قوت دیکھنے کا خواب ذوالفقار علی بھٹو نے دیکھا اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں شرمندہ تعبیر ہوا جب کہ میاں نواز شریف کو ایٹمی دھماکے کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1998 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا دو ٹوک اور ٹھوس جواب دینے کا فیصلہ کرنے میں چند گھنٹوں کی تاخیر نہیں کی تھی۔ وہ اس وقت پاکستان سے باہر قازقستان کے دورے پر تھے۔ انہوں نے 11مئی1998ء دو شنبے سے چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیر کرامت اور دیگر متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کر دیںکہ جوابی ایٹمی دھماکوں کی تیاری شروع کردی جائے ۔ انہوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ سارا کام کم سے کم درکار وقت یعنی سترہ دن کے اندر اندر مکمل کرلیا جائے۔ ڈاکٹر اے کیوخان اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے مل کر جو کام کیا ہے اس کو حقیقت کا روپ دینے میں نواز شریف کی جرات و استقامت شامل تھی۔ 28مئی کو ’’یوم تکبیر ‘‘ ہمیں اس بات کی یاد دلاتا رہے گا کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے لئے ہم نے بڑے دریا عبور کئے ہیں ۔ ڈاکٹراے کیو خان کی داستان حیات ’’دیو مالائی ‘‘ شخصیت کی سی ہے جس نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے لئے اپنی ساری زندگی ایک ’’قیدی‘‘ کی طرح گزار دی۔ اگر پاکستان یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت حاصل نہ کرتا تو کسی صورت ایٹمی قوت نہ بنتا ڈاکٹر خان نے ایٹم بم کی تمام ڈرائنگ محفوظ ہاتھوں کے سپرد کر دی ۔ انہیںایٹم بم کا خالق ہونے کے کریڈٹ سے محروم کر نے کی سازش نوائے وقت نے ان کا انٹرویو لے کر ناکام بنا دی ۔
یوم تکبیر: ڈاکٹر قدیر خاں اور مجید نظامی
May 28, 2020