عالم اسلام کیلئے مبارک دن

May 28, 2020

عزیز ظفر آزاد

انگریز اور ہندو کی آزادی کی قیمت کا اندازہ ان خاندانوں کو ہے جنہوں نے 1947ء میں تقسیم بنگال و پنجاب کے دلخراش مناظر نہ صرف دیکھے بلکہ عملی طور پر آگ و خون کے دریا عبور کئے۔ اپنے پیارو ں کو اپنی آنکھوں کے سامنے تہہ تیغ ہوتے دیکھا۔ اگست کی شدید حبس اور گرمی کھیتوں کھلیانوں میں برساتی پانی ، رات کے اندھیروں میں قافلوں کا سفر ، ہندو سکھ مسلح جتھوں کے حملے ، جوان بیٹوں کی لاشیں ، بیٹیوں کی آہ و پکار ، زخمیوں کی سسکیاں ، اپنے بزرگوں کی قبروں کو چھوڑنا اس بے بسی و بربادی کے بعد آزادی الااماں ، زخم خوردہ روح و جسم کے ساتھ تعمیر وطن میں لگی قوم بقا اور استحکام کے مرحلے طے کرنے کا عزم لئے ایک سال مکمل کیا تو عظیم قائد کے سائے سے محروم ہوگئی جس کے بعد قومی اتحاد و اتفا ق نفاق و انتشار میں تبدیل ہونے لگا۔1947ء کی شکست خوردہ ذہنیت اپنے پرانے آقائوںکے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنے رہے۔ حکمت سے عاری حکومتیں نااہلی کے سبب دنیا کی سب سے بڑی نظریاتی ریاست کے خلاف سازشیں اس کی وحدت پر کاری ضرب لگانے میں کامیاب ہوگئیں۔ عظیم جدوجہد سے حاصل کر دہ ملک دو حصوں میں تقسیم کیا۔ سقوط ڈھاکہ تاریخ اسلامی میں سیاہ باب بنا جس کے نتیجے میں مغربی پاکستان کے عوام شکست بے یقینی شکار تھے۔ راقم کو یاد ہے کہ کئی دن گھروں میں چولہے نہیں جلائے گئے۔ میرے والد عزیزواقارب ایک دوسرے سے ملتے تو دھاڑیں مار مار کر روتے۔ رنج و عالم کی یہ کیفیات عرصہ تک پوری قوم پر طاری رہیں جو لوگ سینہ تان کر تحریک پاکستان کے واقعات سناتے تھے بقیہ کٹی پھٹی سرزمین کے مستقبل سے بھی مایوس تھے۔ دوسری جانب اندراگاندھی اعلان کر رہی تھی کہ ہم نے مسلمانوں سے ہزار سالہ زیادتی کا انتقام لے لیا۔ ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا۔ اس دوران بظاہر پاکستان ہندو کی خواہش کے مطابق ان کی ذیلی و طفیلی ریاست کی شکل اختیار کر چکا تھا۔تاہم انہی حالات میں دوبارہ قومی زندگی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک نئے پاکستان کا تصور لے کر میدان میں نظرآتا ہے۔ بھٹو سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر پھر صدر اور بعد میں وزیر اعظم پاکستان کے روپ میں نظرآئے۔ لاہور میں اسلامی کانفرنس ہوئی جہاں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش تسلیم کرنے کی رسم ادا کی گئی۔ یہ کانفرنس اسلامی دنیا میں یکجہتی اتحاد کی لہر ثابت ہوئی جو مایوس اور زخموں سے چور قوم کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا تھا۔
انہی حالات کی عکاسی کرتے ہوئے محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان فرماتے ہیں کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے غم نے مجھے شدید مایوس کیا مگر بھارت نے 1974ء میں جب ایٹمی دھماکہ کیا تو میرے اندر انتقام کے ساتھ حفاظت وطن کی نئی تمنا نے جنم لیا لہذا بھٹو صاحب کو خط لکھا کہ میں پاکستان کو ایٹمی طاقت کے روپ میں ابھارنے کی خواہش اور صلاحیت رکھتا ہوں جسے بھٹوصاحب نے پذیرائی بخشی بقول ڈاکٹر قدیر 74ء میں وسائل کی کمیابی اور دنیا کی تمام تر مخالفت کے باوجود میرے ساتھیوں کی حب الوطنی اور ایمان افروز محنت نے دس سال کے قلیل عرصہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو جوہری قوت کی حامل سلطنت میں تبدیل کر دیا۔
پاکستانی قوم نے پھر وہ دن بھی دیکھا جسے قیام پاکستان کے بعد سب سے سرخر واور خوش بخت دن کہا جاسکتا ہے کہ مئی 1998ء میں بھارت کے 6 ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کے چاغی کے پہاڑوں میں 7 دھماکے کرکے پہاڑوں کا رنگ اور دنیا کی سوچ و چلن بدل ڈلا۔ اپنے ازلی دشمن پر اپنی صلاحیت و مہارت کی بنیاد پربرتری کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس پر عالمِ اسلام کو فخر ہے۔ یہ وہ دن تھا کہ پوری اسلامی دنیا تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھی۔ پاکستانیوں کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر خوشی اور افتخار کے آنسوتھے، قوم کو ایک نیا جذبہ اورولولہ ملا۔ اس دن کو یوم تکبیر کا نام دیا گیا۔ تکبیر صرف پاکستانیوں کا نشان نہیں یہ تو اسلام کی سربلندی کا نعرہ ہے۔ اللہ کی بڑائی کی صدا ہے لہذا یہ ایٹم بم بھی پور ی ملت اسلامیہ سے منسوب ہوا۔ دنیا میں کوئی ہندو بم ہے نہ عیسائی یہودی بم پاکستانی ایٹم بم اسلامی ایٹم بم کہلایا۔ اس کا اعلان کشمیر فلسطین ، بوسینیا اور بھارت کے مظلوم مسلم بیٹے تو کر ہی رہے تھے مگر یہ نام اسے تکبیر کے دشمنوں نے دیا جیسے 1940ء کی قرار داد لاہور کو قرارداد پاکستان ہندواخباروں نے لکھا اسی طرح پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم خوف زدہ ہنود و یہود نے قرار دیا۔

مزیدخبریں