اسلام آباد (رپورٹ:عبدالستارچودھری) پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت کے درمیان اختلافات کے باعث پارٹی عہدیداروں نے بھی سیاسی سرگرمیاں محدود کر دیں۔ پارٹی کے سینئر قائدین اور منتخب ارکان پارلیمنٹ بھی اس صورتحال سے پریشان ہیں کہ مستقبل میں کس لیڈر کا ساتھ دیں، کیونکہ پارٹی قائدین کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اگر ووٹ بنک مریم اور نواز شریف کے پاس ہے تو شہباز شریف مقتدر حلقوں میں دن بدن مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں پارٹی کارکنان میں نہ صرف شدید بے چینی پائی جاتی ہے بلکہ مسلم لیگ (ن) کے قائدین، کارکنان اور ارکان پارلیمنٹ بھی اس تذبذب کا شکار ہیں کہ موجودہ حالات میں وہ کس سائیڈ پر کھڑے ہوں، مستبقل میں کس پارٹی قائد کا بیانیہ انہیں ’’سوٹ‘‘ کرے گا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق پارٹی کے مرکزی رہنمائوں خاص طور پر وہ قائدین جو میاں نواز شریف کے انتہائی قابل اعتماد ہیں ان کو پارٹی صدر کی جانب سے سینیٹر آغا شاہزیب درانی کو مرکزی نائب صدر بنائے جانے پر بھی تحفظات تھے۔ ان رہنمائوں کا خیال ہے کہ اپنے خاندانی پس منظر کے باعث میاں شہباز شریف کو مقتدر حلقوں میں مقبول بنانے میں اس تقرری کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔