’’واٹس ایپ‘‘ کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنی بھارت کی مودی سرکار کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوگئی ہے۔سوشل میڈیا چلانے والی ایک طاقت ور ترین کمپنی اور بھارتی حکومت کے درمیان جو قضیہ شروع ہوا ہے اس کا انجا م تاریخ ساز عالمی اثرات کا حامل ہوگا۔اگر مودی سرکار جیت گئی تو آمریت کے جبر سے رہائی کے خواہش مندوں کو اپنا پیغام ریاستی نگاہ سے بچ بچاکر پھیلانے والوں کو ’’محفوظ‘‘ پلیٹ فارم میسر نہیں رہیں گے۔یہ فیصلہ بھی ہوجائے گا کہ دور حاضر میں حتمی اختیار نجی سرمایہ کاروں کی بنائی کاروباری اعتبار سے انتہائی کامیاب کمپنیوں کو منتقل ہوگیا ہے یا ’’قومی ریاست‘‘ اب بھی سب پر بالادست ہے۔
’’واٹس ایپ‘‘ والوں کا دعویٰ ہے کہ کسی بھی ریاست کے شہریوں کے نظریات اور خیالات پر نگاہ رکھنے والے ادارے ان کی ایجاد کردہ سہولت کے ذریعے بھیجے پیغامات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ اسرائیل کی چند کمپنیاں اگرچہ اس کا ’’علاج‘‘ ڈھونڈنے میں کامیابی کا دعویٰ کررہی ہیں۔ انہوں نے دنیا کی کئی ریاستوں کو بھی ایسا سافٹ وئیر بیچا ہے جو ’’شرپسندوں‘‘ کی جانب سے بھیجے پیغامات کا سراغ لگالیتا ہے۔یہ سافٹ ویئر مگر بہت مہنگا ہے۔ وہ معدودے چند ٹیلی فونوں تک ہی رسائی حاصل کرسکتا ہے۔دو افراد کے مابین گفتگو کو ’’اچکنے‘‘ کے بعد اسے ڈی کوڈ کرنے میں بھی کافی وقت صرف ہوجاتا ہے۔’’واٹس ایپ‘‘ والے مگر ’’گھبرانا نہیں‘‘ والا پیغام دیتے رہتے ہیں۔
’’دہشت گردی‘‘ کا کوئی بہت بڑا واقعہ ہوجائے اور اگر اس کے ارتکاب کے لئے واٹس ایپ کے ذریعے بھیجے پیغامات کا کردار نظر آئے تو امریکہ جیسی حکومتیں بھی طویل اور پیچیدہ قانونی کارروائی کے ذریعے واٹس ایپ والی کمپنی کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ چند مخصوص نمبروں کے ذریعے ہوئی گفتگو کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فراہم کرے۔ مودی سرکار اس بندوبست سے مطمئن نہیں۔ حال ہی میں اس نے چند کڑے اور جامع قوانین تیار کئے ہیں جو ٹویٹر،فیس بک اور واٹس ایپ کی سہولتیں فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ’’ریاستی تقاضوں‘‘ کے احترام کا عادی بنائیں گے۔ مودی سرکار ڈٹی ہوئی ہے کہ اگر مذکورہ کمپنیوں نے ان کے احکامات کو تسلیم نہیں کیا تو بھارت میں ان کے ایجاد کردہ پلیٹ فارموں کو بین کردیا جائے گا۔
سوشل میڈیا کی اجارہ دار کمپنیوں کے لئے بھارت ایک بہت بڑی منڈی ہے۔آبادی کے اعتبار سے دُنیا کے سب سے بڑے ملک یعنی عوامی جمہوریہ چین میں ان کی ایجاد کردہ سہولتوں کا استعمال ممنوع ہے۔چینی عوام کو پیغام رسانی اور سماجی رابطے کی جدید ترین سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے قابل بنانے کے لئے چین نے اگرچہ بھاری بھر کم سرمایے سے ’’دیسی پلیٹ فارم‘‘ تیار کرلئے ہیں۔ انہیں استعمال کرنے والوں پر بھی کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے۔
چین کے برعکس بھارت مگر ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ ہونے کا دعوے دار ہے۔ 1990کی دہائی سے جنوبی بھارت کے بنگلور اور حیدر آباد جیسے شہر کمپیوٹر سے متعلق بے تحاشہ کمپنیوں کے مرکز بھی بن چکے ہیں۔گوگل کی طرح بھارت نے انٹرنیٹ کے استعمال کے لئے مثالی طورپر ایک ’’سرچ انجن‘‘ بھی تیار کرلیا ہے۔ گوگل اور اس کے ذریعے سماجی رابطے کی دیگر ایپس کے استعمال کے عادی ہوئے صارفین کو مگر ’’مزہ‘‘ نہیں آرہا ۔وہ ٹویٹر،فیس بک اور واٹس ایپ سے چمٹے ہوئے ہیں۔
مودی سرکار کو اعتماد ہے کہ سماجی رابطے کی سہولتوں کی اجارہ دار کمپنیاں بھارت جیسی منڈی سے محروم ہونا نہیں چاہیںگی۔ چند روز اڑی دکھانے کے بعد کسی نہ کسی نوع کے مک مکا کو مجبور ہوجائیں گی۔مودی سرکار کو حوصلہ دینے کے لئے ٹویٹر والی کمپنی کمال مکاری سے ’’درمیانی راستہ‘‘تلاش کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔ مودی سرکار کو خوش رکھنے کو اپنے پلیٹ فارم سے وہ پیغامات فوراََہٹا دیتی ہے جنہیں بھارتی ریاست ابتری اور انتشار پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔واٹس ایپ والے مگر جھکنے کو تیار نہیں ہورہے۔ دلی ہائی کورٹ چلے گئے ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی ایجاد کردہ سہولت ’’حق اظہار‘‘ کو یقینی بناتی ہے۔وہ ہرگز اس فرد کی نشان دہی کے لئے تیار نہیں ہوگی جس نے واٹس ایپ کے ذریعے نظر بظاہر کوئی ’’تخریبی‘‘ پیغام بھیجا۔مودی سرکار نے ان کی فریاد کے خلاف ایک جاندار مؤقف اختیار کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ انسانوں کے ’’بنیادی حقوق‘‘ کا تحفظ فقط اس صورت ممکن ہے اگر ریاست اپنے یہاں ابتری وانتشار پھیلانے والوں پر کڑی نگاہ بھی رکھ پائے۔
مودی سرکار کی بھارتیہ جنتا پارٹی درحقیقت ایک ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کا سیاسی روپ ہے۔ یہ تنظیم مشنری انداز میں کام کرتی ہے۔ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی نے اپنا پیغام فروغ دینے کے لئے جو ہتھکنڈے اختیار کئے تھے آر ایس ایس ان سے بہت متاثر ہے۔ اس صدی کا آغاز ہوتے ہی ہماری تحریک انصاف کی طرح بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی سوشل میڈیا کو اپنا پیغام پھیلانے کے لئے جنونی انداز میں استعمال کیا۔ کل وقتی کارکنوں کا ایک بہت بڑا گروہ اپنے سیاسی مخالفین کو جھوٹی سچی خبروں کے ذریعے بدنام کرنے کے علاوہ جارحانہ تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔چند نامور صحافیوں کو بھی اس ’’سپاہ ٹرول‘‘ نے اپنی زد میں رکھا۔سرکارکی سرپرستی کا محتاج روایتی میڈیا ’’غیر ذمہ دار صحافیوں‘‘ کو نوکریوں سے فارغ کرنے کو مجبور ہوا۔طویل دربدری کے بعد چند پرعزم صحافیوں نے بہت لگن سے تاہم بالآخر انٹرنیٹ پر میسر ’’اخبارات اور ٹی وی ‘‘ متعارف کروادئیے۔ یوٹیوب نے بھی کئی صحافیوں کو اپنے دل کی بات برملا بیان کرتے ہوئے رزق کمانے کے مواقعہ فراہم کئے ۔
سوشل میڈیا پر اب بھارتیہ جنتا پارٹی کا کامل اجارہ نہیں رہا۔ ہندو انتہا پسند بیانیے کو اس وقت انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب علی گڑھ یونیورسٹی کے بچے اور بچیاں مسلمانوں کے خلاف واضح تعصب دکھاتے شہریت والے قانون کے خلاف 2019میں سڑکوں پر آگئے۔ بھارتی پنجاب اور ہریانہ سے ابھری کسان تحریک نے بھی سوشل میڈیا پر مودی سرکار کو غریب دشمن دکھانا شروع کردیا۔ کرونا کی وبا نے مگر ان تحاریک کو غیر مؤثر بناڈالا ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی ’’ذہن سازی‘‘ والی ’’مہارت‘‘ نے اس ضمن میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
کرونا کی وبا نے مودی سرکار کو طلبہ اور کسان تحاریک سے تو بچادیا مگر حال ہی میں ابھری کرونا کی نئی لہر نے اسے وبا ہی کے حوالے سے مکمل طورپر بے بس بھی دکھایا۔مودی سرکار نے اپنے تئیں ایک سخت گیر لاک ڈائون کے ذریعے مذکورہ وبا پر ’’قابو‘‘ پانے کا دعویٰ کیا۔اس کے ہاں کرونا سے تحفظ کو یقینی بنانے والی ویکسین بھی متاثر کن تعداد میں تیار ہونا شروع ہوگئی۔اس تعداد کے بل بوتے پر بھارتی سرکار نے اپنے چند ہمسایہ اور افریقہ کے غریب ملکوں کو یہ ویکسین تحفتاََ فراہم کی۔ کرونا کی دوسری لہر مگر بہت شدت سے نمودار ہوگئی۔ بھارتی صحت عامہ کا نظام اس کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔ ’’سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘ والے سرکاری پیغام تسلی دینے کے بجائے سفاکانہ سنائی دینا شروع ہوگئے۔ ٹویٹر پر مسلسل لگائے پیغامات کے ذریعے تمام عالم میں یہ خبر پھیل گئی کہ بھارت کے کئی اہم شہروں کے ہسپتالوں میں آکسیجن میسر نہیں۔ کرونا کے مریضوں کے لئے بستر بھی موجود نہیں رہے۔اس کی زد میں آئے سینکڑوں بدنصیب سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر زندگی کی بازی ہارتے نظر آرہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر کرونا کی دوسری وبا کی بدولت ابھرے مناظر نے مودی سرکار کو حواس باختہ بناڈالا ہے۔’’ستے خیراں‘‘ کا پیغام دینے والے ریاستی اعدادوشمار کی اب کوئی ساکھ نہیں رہی۔ مودی سرکار اسی باعث بضد ہے کہ ریاستی کنٹرول سے آ زاد اطلاعات فراہم کرنے والے ’’متبادل‘‘پلیٹ فارموں کو ابتری وخلفشار پھیلانے کا باعث قرار دیا جائے۔
مودی سرکار کو مگر بخوبی علم تھا کہ کرونا کے ہاتھوں بدحال ہوئے بھارت کے حقیقی مناظر کو ’’تخریبی‘‘ ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ٹویٹر پراس ضمن میں لگائے پیغامات کی بے پناہ اکثریت بلکہ ’’انسانی ہمدردی‘‘ کی کاوش تھی۔ سماجی رابطے کے پلیٹ فارموں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے اس نے بنیادی طورپر ’’دہشت گردی‘‘ کے چند سنگین واقعات کے حوالے دینا شروع کردئیے۔ واٹس ایپ کو اس تناظر میں کلیدی ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ جو نیا قانون اس نے متعارف کروایا ہے وہ واٹس ایپ کو مجبور کرے گا کہ اس کی سہولت استعمال کرنے والے ’’دہشت گرد‘‘ کی فوراََ نشان دہی کردے۔
’’دہشت گردی‘‘ نے ریاستوں کو اپنے شہریوں پر کڑی نگاہ رکھنے کے نظر بظاہر ٹھوس جواز فراہم کئے ہیں۔امریکہ جیسے ملک مگر سوشل میڈیا کو اس کاذمہ دار ٹھہرانے سے ہچکچاتے رہے ہیں۔اس برس کا آغاز ہوتے ہی لیکن 6جنوری کے دن امریکی پارلیمان پر سماجی رابطوں کی ایپس کے ذ ریعے مشتعل ہوئے ہجوم نے حملہ کیا تو ان ایپس کو قابو میں لانے کی فریاد شروع ہوگئی۔ ریاست کو مگر اس ضمن میں اختیار دینے کو امریکی عوام کی اکثریت ابھی تک تیار نہیں ہورہی۔تقاضہ ہورہا ہے کہ ٹویٹر اورفیس بک چلانے والی کمپنیاں اپنے طورپر ایسا بندوبست کریں کہ نفرت بھرے پیغامات ان کے پلیٹ فارموں پر موجود نہ رہیں۔ مودی سرکار مگر اپنے لئے کامل کنٹرول حاصل کرنے کی ضد میں مبتلا ہوچکی ہے۔ایک عالمی کاروباری کمپنی اور مودی سرکار کے درمیان جاری ہوا قضیہ کئی حوالوں سے اہم ترین ہے۔ہمیں بھی اس پر نگاہ رکھنا ہوگی۔