آج کا دن وہ معجزاتی دن ہے جو قیام پاکستان کے بعد تاریخ پاکستان کا سب سے بڑا دن کہلانے کا حقدار ہے۔ اس دن خون جگر اور قلب و نظر کی بدولت پاکستان نے دنیا میں اپنی ایٹمی صلاحیت کا لوہا منوایا اور اپنے دفاع کو محفوظ بنا دیا۔ یہ سب اللہ کریم کی مہربانی اور ہمارے سائنسدانوں کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔
بھارت کی طرف سے اندرا گاندھی کے دور میں ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد پاکستان کے اس و قت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے کیلئے اور بھارتی ایٹمی صلاحیت کے جواب میں پاکستان کو ایٹمی ملک بنانے کی جس کوشش کا آغاز کیا وہ کسی تخیلاتی کہانی سے کم نہیں۔ یہ عزم و جنون کی ایک لازوال داستان ہے جو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ کوئی تصور بھی نہیںکر سکتا تھاکہ 1971ء میں دولخت ہونے والا یہ ملک نہایت خاموشی سے ایٹمی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ مگر وزیراعظم بھٹو نے حقیقت میں ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے والے دعوے کی لاج رکھ لی اور ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہالینڈ سے بلا کر چپکے چپکے ایٹمی پلانٹ کی بنیاد رکھ کر اس پر کام شروع کر دیا۔ 1977ء میں گرچہ وزیر اعظم بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا مگر آنے والی حکومتوں میں سے کسی میں جرأت نہ تھی کہ وہ اس ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کا تصور بھی کرتے یہ ہمارے دفاع کیلئے ناگزیر پروگرام تھا۔ ضیاء الحق ، بے نظیر ، نواز شریف اور اس پروگرام کے کرتا دھرتائوں سب نے نہایت خاموشی سے اس پروگرام کو ناصرف جاری رکھا بلکہ اسے ہر ممکن طریقے سے پروان چڑھایا۔ امریکہ اور اسکے حواری پہلے تو افغان وار کی وجہ سے خاموشی سے یہ کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور رہے کہ اگر وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر سوال اٹھاتے تو اسے افغانستان کی جنگ میں اپنے سب سے بڑے حلیف اور اتحادی سے ہاتھ دھونا پڑتا مگر جب افغان وار ختم ہوئی تو امریکہ نے آنکھیں بدلنا شروع کی اور بھارت کی شہ پر اپنا رنگ دکھانے لگا۔ 1998ء میں جب میاں نوازشریف کی حکومت قائم تھی۔ بھارت نے ایک بار پھر5 ایٹمی دھماکے کر کے عالمی سطح پر ہلچل پیداکر دی۔ عالمی سطح پر اس کے جواب میں واجبی سا احتجاج ہوا جسے بھارت نے حسب معمول ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا۔ اب صورتحال گمبھیر ہوچکی تھی۔ پاکستان ایٹمی دھماکہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا تھا صرف اس کا ٹیسٹ کرنا باقی تھا۔ امریکہ اور عالمی برادری نے جب دیکھا کہ حکومت پاکستان پر دبائو بڑھ رہا ہے کہ وہ بھی ایٹمی دھماکہ کرے تو عالمی برادری نے پاکستان کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اس وقت کے حکمران میاں نواز شریف نے اپنے مربی جناب مجیدنظامی کی یہ نصیحت پلے باندھ لی تھی کہ ’’میاں صاحب اگر آپ نے ایٹمی دھماکہ نہیں کیاتو پوری قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔‘‘ یوں آج سے 23 سال قبل وہ روز سعیدبھی تاریخ پاکستان کے ماتھے پر جھومر بن کر چمکا جب تمام تر رکاوٹوں اور سازشوں کے باوجود چاغی میں بھارت کے 5 دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے یکے بعد دیگرے 6 ایٹمی دھماکہ کر کے بھارت کے ایٹمی ملک ہونے کا غرور خاک میں ملا دیا اور دنیا کے پہلے ایٹمی اسلامی ملک ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ بھارت کے ایٹمی صلاحیتوں اور دھماکوں کے جواب میں پاکستان کے ایٹمی دھماکہ اور اسکی ایٹمی صلاحیت بھارت کے مقابلے میں کئی گنا بہتر اور طاقتور تھی۔ یوں عالمی سطح پر پاکستان بھی ایٹمی کلب کا ممبر بن گیا۔ بھارت کا وہ غرور جس کے زعم میں وہ پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوشش میں لگا رہتا تھا‘ کسی ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہو گیا۔ یہ اس ایٹمی صلاحیت کا اعجاز ہے کہ ہم آج بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکھڑے ہیں۔ عددی فوجی اور آبادی کی برتری کے باوجود بھارت میں جرأت نہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف کوئی منفی چال چل سکے۔ ہر قدم پراسے یہی خوف رہتا ہے کہ پاکستان اس سے ٹکر لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ ایک مضبوط ایٹمی طاقت بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ تمام تر خباثت کے باوجود بھارت پاکستان کے خلاف صرف ریشہ دوانیاں کر پاتا ہے۔ براہ راست اس سے ٹکر لینے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ آج کا دن ہر سال یوم تکبیر کے طورپر منا کر ہم اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے ملک کے دفاع کیلئے جو کچھ ہوا ضرور کریں گے۔ بھوکے رہ لیں گے‘ گھاس کھا لیں گے مگر اپنے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کیلئے اپنے ملک کی سرحدوں کے دفاع کیلئے اپنی جان کی بازی لگا دیںگے۔ یہ ایٹمی ہتھیار صرف شو کیس میں سجانے کیلئے نہیں ہیں۔ ضرورت پڑی تو اسے ہم دشمن کو نیست و نابود کرنے کیلئے بھی استعمال کریں گے۔ یہ بات ہمارے دشمن بھی جانتے ہیں اور اسی لئے وہ دبکے پڑے رہتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہم شیشہ نہیں‘ فولاد ہیں۔ ایٹمی صلاحیتوں سے لیس ایک مضبوط اور طاقتور اسلامی ملک ہیں۔
شیشہ نہیں فولاد ہیں ہم
May 28, 2021