معزز قارئین! ماشاء اللہ !۔ آج ہم سب (اہل ِ پاکستان) اور بیرون ملک آباد ’’فرزندان و دُخترانِ پاکستان‘‘ وطن عزیز کے ایٹمی تجربے کی 23 ویں سالگرہ منا رہے ہیں ۔ ہمیں ایٹمی تجربہ اِس لئے کرنا پڑا کہ اِس سے قبل ہمارا پڑوسی (ازلی دشمن) بھارت فروری 1974ء میں پہلی بار اور 3مئی 1998ء کو دوسری بار ایٹمی تجربہ کر کے ’’ایٹمی قوت ‘‘ بن چکا تھا لیکن اُس سے پہلے 1979ء میں برطانیہ کے نشریاتی ادارے "B.B.C" نے ٹیلی وژن پر ایک دستاویزی فلم میں (تکلیف کا اظہار کرتے ہُوئے) کہا تھا کہ ’’ پاکستان اِسلامی بم بنا رہا ہے ‘‘۔
اِس سے پہلے امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کے پاس ایٹم بم تھے لیکن کسی "B.B.C" سمیت کسی بھی غیر ملکی نشریاتی ادارے نے اُنہیں ’’عیسائی بم‘‘ قرار نہیں دِیا تھا اور نہ ہی سوویت یونین اور عوامی جمہوریہ چین کے بموں کو ’’ کمیونسٹ بم‘‘ کہا تھا۔ غیر اعلانیہ طور پر اسرائیل بھی ایٹم بم بنا چکا تھا لیکن اُس کے بم کو بھی ’’ یہودی بم ‘‘ نہیں کہا گیا تھا اور نہ ہی بھارتی بم کو ’’ ہندو بم ‘‘ کانام دِیا گیا۔
فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے دَور میں وزیر خارجہ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے اس بیان کو "The Guardian" کے دولتِ مشترکہ کے خصوصی نمائندےMr. Peter Kolkay" " کی اِس رپورٹ کے حوالے سے دُنیا بھر کے اخبارات میں خاص اہمیت دِی گئی تھی کہ ’’ اگر عوام کو گھاس بھی کھانا پڑی تو، بھی ہم ( اہل پاکستان) ایٹم بم ضرور بنائیں گے!‘‘۔
’’جنابِ مجید نظامیؒ اور ایٹم بم ! ‘‘
معزز قارئین ! 28 مئی 2013ء کو ’’ یوم تکبیر ‘‘ کے موقع پر ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان ‘‘ لاہور میں ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ اور ’’ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ کے مشترکہ اجلاس کے صدر کی حیثیت سے ’’ مفسرِنظریۂ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامی ؒ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’’ میاں نواز شریف کو اُن کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں عالمی قوتّوں کی طرف سے ’’ ایٹمی دھماکا ‘‘ کرنے کی صورت میں دھمکیاں دِی جا رہی تھیں اور میڈیا پر یہ خبریں بھی شائع ہو رہی تھیں کہ ’’ دھماکا نہ کرنے پر وزیراعظم نواز شریف کو ہزاروں ملین ڈالرز کی رشوت بھی پیش کی جا رہی تھی ، پھر وزیراعظم صاحب مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے ایٹمی دھماکا کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں مشورے کر رہے تھے۔ جب وہ مجھے اسلام آباد میں قومی اخبارات کے ایڈیٹرز اور سینئر صحافیوں کے اجلاس میں گو مگو کی پوزیشن میں نظر آئے تو مَیں نے اُن سے کہا تھا کہ ’’وزیراعظم صاحب! آپ ایٹمی دھماکہ ضرور کردیں ، ورنہ قوم آپ کا دھماکا ؔکر دے گی۔ مَیں آپ کا دھماکاؔ کر دوں گا ! ‘‘ ۔ جنابِ مجید نظامیؒ نے پھر کہا کہ ’’ چند دِن بعد وزیراعظم میاں نواز شریف نے چاؔغی ( بلوچستان )کے پہاڑسے مجھے ٹیلی فون پر بتایا کہ ’’ محترم مجید نظامیؒ صاحب ! مَیں نے ایٹمی دھماکا کر کے پاکستان کو نا قابلِ تسخیر بنا دِیا ہے ۔ مبارک ہو!‘‘۔ پھر مَیں نے بھی وزیراعظم صاحب کو مبارک باد دِی۔
’’ معاشی دھماکا ! ‘‘
28 مئی 2013ء کو ’’ یوم تکبیر ‘‘ پر وزیراعظم میاں نواز شریف لاہور میں ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘‘ میں جنابِ مجید نظامی ؒکی صدارت میں منعقدہ ’’ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ اور ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ‘‘ کے مشترکہ اجلاس میں مہمانِ خصوصی تھے ، جب اُنہوں نے اعلان کِیا کہ’’ اب مَیں مفلوک اُلحال عوام کے دُکھ دور کرنے کے لئے ’’ معاشی دھماکا ‘‘ کروں گا اور ہر گھر میں روشنیوں کے چراغ جلیں گے ! ‘‘۔ اِس پر 30 مئی 2013ء کو ’’نوائے وقت ‘‘ میں میر ے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ دُور غُربت بھی ہو ، اندھیرا بھی ! ‘‘۔ دراصل میرے دوست ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے وزیراعظم سے مخاطب ہو کر یہ کہا تھا کہ …
’’ روٹی ، کپڑا بھی ہو ، بسیرا بھی!
ٹُوٹے ، دہشت گروں کا ، گھیرا بھی!
دونوں ہی ہیں ، ہماری ترجِیحات!
دْور غُربت بھی ہو ، اندھیرا بھی! ‘‘
…O…
’’روٹی ، کپڑا اور مکان ! ‘‘
معزز قارئین ! صدر سکندر مرزا کی مارشل لائی کابینہ ، پھر صدر جنرل محمد ایوب خان کی مارشل لائی کابینہ میں خدمات انجام دینے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے 30 نومبر 1967ء کو اپنی چیئرمین شپ میں ’’ پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ بنائی تو بھوکے ،ننگے اور بے گھر عوام کے لئے اُن کا نعرہ تھا ۔ ’’ روٹی، کپڑا اور مکان!‘‘ لیکن ذوالفقار علی بھٹو صاحب ، دو بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اُن کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو اور اُن کے مجازی خُدا آصف علی زرداری نے صدرِ پاکستان کی حیثیت سے مفلوک اُلحال عوام کے لئے کچھ نہیں کِیا۔ اُن کے ادوار میں بھوکے ، ننگے اور بے گھر عوام ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہائوس کی طرف مُنہ کر کے یہ آوازے کستے تھے کہ …
روٹی، کپڑا بھی دے ، مکان بھی دے !
اور ہمیں ، جان کی امان بھی دے !
…O…
’’ آنجہانی سوویت یونین !‘‘
معزز قارئین ! ۔ فی الحقیقت ’’ پاکستان میں آمریت اور جمہوریت میں کسی بھی حکمران نے غریب غُرباء کے لئے معاشی دھماکا نہیں کِیا ؟ ۔ ایٹمی قوت "Superpower" سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ اُس کے عہدِ زوال میں چشم فلک نے دیکھا کہ ’’ سوویت یونین کی مختلف "States" (ریاستوں) کی بیکریوں کے باہر ہاتھوں میں "Roubles" لئے خریداروںکی لمبی لمبی قطاریں تھیں لیکن ، بیکریوں میں اشیائے خورو نوش نہیں تھیں لیکن ہمارے پیارے پاکستان میں تو ، غربت کی لکیر سے نیچے 60 فی صد عوام کے پاس قوّتِ خرید ہی نہیں ہے ؟ ۔ اللہ کرے کہ ’’ ہمارا پیارا پاکستان سلامت رہے لیکن مجھے تو آج ذوالفقار علی بھٹو یاد آ رہے ہیں ۔ کیوں نہ مَیں اپنے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کا کلام آپ کی خدمت میں پیش کروں ؟…
’’کھانا پڑے گا، ورنہ زہر ، گھاس کھائِیے! ‘‘
…O…
’’ سب ہوگیا ہے، زیر و زبر، گھاس کھائِیے!
اربابِ ذوق و علم و ہُنر، گھاس کھائِیے!
… O…
روٹی نہیں ، تو بُھوک کا، کیسے علاج ہو ؟
کھائیں گے، کیسے لعل و گہر، گھاس کھائِیے !
…O…
جنگل میں ، یوں تو اور، جڑی بوٹیاں، بھی ہیں!
اہلِ وطن کے ساتھ، مگر ، گھاس کھائِیے!
…O…
جب تک ، نجات نہ مِلے، غمِ روز گار سے!
بہتر یہی ہے، شام و سحر، گھاس کھائِیے!
… O …