کشمیر .... کاز سے خواب تک 

May 28, 2022

عبداللہ طارق سہیل

برسوں سے تہاڑ جیل میں بند کشمیری رہنما یٰسین ملک کو ایسے الزام میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی جس کے درست ہونے پر خود بھارتی دانشور بھی تیار نہیں۔ نو عمری سے امن پر یقین رکھنے اور عسکریت پسندی کی مخالفت کرنے والے یٰسین ملک پر یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے کسی دہشت گرد تنظیم کی مالی مدد کی ہے۔ المیہ یہ ہوا کہ اس ظلم پر دنیا بھر میں کوئی ردّعمل نہیں ہوا۔ دنیا بھر کی بات ہی کیا، خود ہمارے ملک میں یہ خبر سیاسی طوفان کی گرد میں چھپ گئی ۔ طوفان تھم گیا لیکن یہ معاملہ بدستور گم ہے اور روایتی بیانات دئیے جا رہے ہیں جو بھارت کیلئے تفنن طبع سے زیادہ کچھ نہیں۔ 
................
ہمارا یہ شکوہ درست نہیں ہے کہ دنیا کشمیر پر کوئی کردار ادا نہیں کر رہی۔ دنیا کے کردار کی توقع تبھی ہو سکتی ہے جب مقدمے کا کوئی مدعی ہو۔ کشمیر کا مقدمہ موجود ہے، مدعی غائب ہے۔ اس سچ کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے کہ 65 وار کے بعد سے پاکستان نے مرحلہ وار کشمیر کیس سے دستبرداری اختیار کی ہے ۔ آخری مرحلہ 2018ءمیں آیا جب پاکستانی وزیر اعظم نے وائٹ ہاﺅس میں امریکی صدر سے ملاقات کی۔ پتہ نہیں اس ملاقات میں کیا راز و نیاز ہوئے لیکن فوراً بعد ہی بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت بدل دی اور اسے بھارتی یونین میں ضم کر دیا۔ پاکستان کی طرف سے جو زوردار ردّعمل متوقع تھا، وہ کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔ کشمیر کیلئے چند منٹ کی خاموشی اور ہاتھوں کی قطار یا زنجیر بنانے کے مضحکہ خیز اقدامات نے معاملے کی سنگینی کا رہا سہا تاثر بھی ٹھکانے لگا دیا۔ 
................
کشمیر پر پہلی غلطی یہ ہوئی کہ ہمارے ہی لوگوں نے اسے متنازعہ علاقہ قرار دے دیا۔ یعنی دنیا کو بتا دیا کہ کشمیر پر دو فریقوں کا دعویٰ ہے وہ یہ فیصلہ کرے کہ کس کا دعویٰ درست ہے۔ 
کشمیر متنازعہ نہیں ہے بلکہ مقبوضہ علاقہ ہے۔ کوئی پیچیدہ بحث نہیں۔ بالکل سیدھی اور آسان فہم بات ہے کہ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت کشمیر پاکستان کا حصہ ہے لیکن بھارت نے فوج بھیج کر اس پر قبضہ کر لیا۔ 
فارمولے کے تحت ریاستوں کو دو میں سے ایک آپشن لینا تھا۔ پہلا یہ کہ ریاست میں جس قوم کی اکثریت ہو، وہ اسی قوم کی اکثریت والے ملک میں شامل ہو جائے اور دوسرا یہ کہ ریاست کا والی جس ملک سے ملنا چاہے، اس سے مل جائے۔ آپشن ایک استعمال ہوتی ہے، دونوں نہیں۔ بھارت نے دونوں آپشنوں کا زبردستی استعمال کیا۔ 
پہلی آپشن کے تحت کشمیر کو پاکستان سے ملنا تھا لیکن یہاں بھارت نے دوسری آپشن اختیار کی جبکہ یہی بھارت حیدر آباد دکن اور جوناگڑھ میں پہلی آپشن لی اور دونوں ریاستوں پر قبضہ کر لیا جبکہ ان دونوں ریاستوں کے والی پاکستان سے الحاق کا اعلان کر چکے تھے۔ 
پاکستان اس دوٹوک خلاف ورزی کو کسی بھی عالمی پلیٹ فارم پر ٹھیک سے نہیں اٹھا پایا۔ 
اس کے باوجود عالمی سطح پر پاکستانی موقف کی حمایت زیادہ تھی۔ بھارت کا ساتھ دینے والے بہت کم تھے لیکن اس فضا کو اعلان تاشقند سے نقصان پہنچا۔ امریکہ اور روس دونوں اس سازش میں شریک تھے جس کے تحت اس اعلان میں بھارت کے بجائے پاکستان کو ”جارح“ دکھایا گیا اور ایوب خاں نے اس دھاندلی کی توثیق کر دی۔ جنگ ستمبر 1965ءمیں شروع ہوئی ہوئی لیکن اعلان تاشقند میں لکھا گیا کہ جنگ پاکستان نے فروری میں شروع کی۔ ایوب خاں نے دستخط کر دئیے۔ 
1971ءکے سانحے کے بعد پاکستان کے خلاف شدید پروپیگنڈے نے اثر دکھایا اور ہماری عالمی حمایت میں مزید کمی ہوئی۔ ضیاءالحق کے دور میں جہادی سرگرمیاں شروع ہوئیں اور اتنی تیز ہو گئیں کہ بھارت پریشان ہو گیا لیکن پھر مشرف کے دور میں پاکستان نے خود مان لیا کہ یہ سرگرمیاں ”کراس بارڈر ٹیررازم“ تھیں۔ اس کے بعد ہمارے پلے رہا ہی کیا۔ اس سے پہلے، پرویز مشرف نے حکومت کی مرضی کے بغیر کارگل کی جنگ چھیڑ دی۔ دنیا نے اس کیس میں بھارت کی حمایت کی۔ یوں کشمیر کا کیس مشرف کی وجہ سے دوبارہ شدید مجروح ہوا۔ پاکستان میں جہادی لیڈروں کی پکڑ دھکڑ نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بھارت سچ کہتا تھا۔ کہئے ، کیسا المیہ ہوا کہ بھارت کے دعوے کو ہم نے تقویت دی اور اب ہم یہ شکوہ کرتے ہیں کہ دنیا ساتھ نہیں دے رہی۔ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد تو ہم نے گویا تتمہّ لکھ دیا۔ کشمیر پلیٹ میں رکھ کر بھارت کے حوالے کر دیا۔ یہ مقبوضہ کشمیر کی بات تھی، آزاد کشمیر کی حیثیت بھی ہم نے یہ کہہ کر مشکوک کر دی کہ ہم ریفرنڈم کرائیں گے، کشمیریوں کو تین آپشن دیں گے، یہ کہ بھارت کے ساتھ جانا ہے، پاکستان سے ملنا ہے یا آزاد ریاست بننا ہے۔ یہ بیان عمران خاں نے بطور وزیر اعظم دیا۔ اس بیان پر چند نحیف سی آوازوں میں کچھ لعن طعن ضرور کیا گیا۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ 
................
دنیا میں کسی بھی مقبوضہ علاقے کی تحریک آزادی تب تک کامیاب نہیں ہوئی جب تک اسے باہر سے کسی طاقتور ملک کی مدد نہ ملے۔ چاہے سوڈان کا جنوب ہو، بلقان کا بوسینا ہو، انڈونیشیا کا مشرقی تیمور ہو یا مشرقی ایشیا کا ویت نام ہو۔ خود برصغیر اور افریقی ملکوں کو آزادی تب ملی جب جرمنی نے جنگ عظیم برپا کر کے نوآبادیاتی طاقتوں کے کس بل نکال دئیے۔ افغانستان کو آزادی امریکہ کی فعال مداخلت کی وجہ سے ملی۔ جہاں طاقتور ملک کی مدد نہ ہو تو فلسطین ہو یا فلپائن کا منڈاناﺅ، آزادی نہیں ملتی ۔
کشمیر کو آزادی دلانے کیلئے طاقتور پاکستان کی ضرورت ہے۔ پاکستان کب طاقتور ہو گا اور کیسے ہو گا،ہمارے حکمران اور ادارے یہ نسخہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے، ہمارے پاس کرنے کے اور بھی بہت سے، زیادہ ضروری کام اور دہرانے کیلئے زیادہ دلچسپ تجربات اور روبہ عمل لانے کیلئے لامتناہی تجربات موجود ہیں۔ 72 سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ ان سے فرصت ملے گی تو پاکستان کو طاقتور بنانے کی باری بھی آ ہی جائے گی۔ 

مزیدخبریں