قوم آج ملک کی سلامتی کے بے پایا ں جذبے اور احساس ِ تفاخر کے ساتھ 24 واں یوم ِ تکبیر منا رہی ہے ۔ /24 سال قبل 28 مئی 1998ء کو آج ہی کے دن پاکستان نے بھارت کی طرف سے ہونے والے ایٹمی دھماکوں کے توڑ اور جواب کے طور پر پانچ ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو ورطہ ء حیرت میں ڈال دیا اور بھارت جیساازلی دشمن بھی اس ایٹمی دھماکے پر انگشت بد نداں رہ گیا۔ 1974ء کے اسی مئی کے مہینے کی گیارہ تاریخ کو بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو اپنے ایٹمی طاقت ہونے کی اطلاع دی تھی اور پاکستان کو یہ پیغام دیا تھا کہ بھارت ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے لہٰذا اس سے لڑائی کے بارے میں سوچنا بھی نہیں۔ بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد اگرچہ ہمارے لیے کوئی دوسرا راستہ یا آپشن نہیں تھا سوائے اس کے کہ ہم بھی اس کے جواب اور اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے ایٹمی صلاحیت سے ہمکنار ہوں۔ امریکہ سمیت اس دور کی دیگر ایٹمی طاقتیں بھی ہمیں اپنے دفاع کا یہ جائز حق دینے کو تیار نہیں تھیں۔ وہ بھارت کو تو ایٹمی دھماکے کرنے سے نہ روک سکیں لیکن پاکستان پر ہر انداز اور ہر لحاظ سے دبائو ڈالنے لگیں۔ کہیں لالچ اور ترغیب کے ذریعے اور کہیں معاشی پابندیوں کی دھمکیوں کے ذریعے ہمیں ایٹمی طاقت بننے سے باز رہنے پر مجبور کیا جانے لگا، لیکن پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کے عزم صمیم اور ہمت و جرأت کے آگے کسی کی نہ چل سکی اور پاکستان کی حکومت کو تمام تر دھمکیوں اور ترغیبات کے باوجود دھماکے کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
بھارت کو اس کی زبان میں جواب دینا اس لیے بھی ضروری تھا کہ وہ ایسا بدطنیت ہمسایہ ہے جو ہر وقت موقع میں تلاش میں رہتا اور کسی بھی وقت جارحیت کا ارتکاب کر سکتا ہے۔ چنانچہ بھارت کے انہی مکروہ عزائم کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایک ایٹمی ملک بنانے کا تہیہ کر لیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے ‘‘ چنانچہ انہوں نے اپنے اسی عزم کی تکمیل کے لیے منصوبہ بندی شروع کر دی۔ انہوں نے ملک کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان اور ممتاز میٹالرجیکل انجینئر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہالینڈ سے پاکستان بلوایا ا ور انہیں یہ ٹاسک سونپا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس مقصد کے لیے فری ہینڈ دیا گیا اور ان کی مرضی کی ٹیم کے چنائو کے مواقع میسر کیے۔ تمام ضروری فنڈز اور ادارہ جاتی معاونت فراہم کی گئی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہوٹہ کے قریب لیبارٹری اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم کیا اور پھر دن رات اس مقصد کے حصول کے لیے یکسو ہو گئے۔ انہوں نے بیرونی ممالک سے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے ضروری مواد منگوایا اور پوری آزادی اور خودمختاری کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ ان کی ٹیم نے دن رات ایک کر کے بالآخر وہ منزل پا لی جس کیلئے وہ مسلسل محنت اور جانفشانی کے ساتھ سرگرم عمل تھے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں پاکستان کے سائنسدانوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سربراہی میں اگرچہ ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر لی تھی ۔ تاہم یہ اعزاز میاں محمد نواز شریف کے حصے میں آیا جن کے دور میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کا ایٹمی بٹن دبانے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن اس کا بھی اصل کریڈٹ امام ِ صحافت اور معمار ِ نوائے وقت مجید نظامی کو جاتا ہے جنہوں نے متذبذب نوازشریف کو ایٹمی دھماکہ کرنے کیلئے مجبور کیا ۔ ان کے یہ الفاظ تاریخ میں ثبت ہوچکے ہیں کہ ’’ وزیر اعظم صاحب ایٹمی دھماکہ کریں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کردے گی، میں آپ کا دھماکہ کردوں گا۔ چنانچہ اسکے بعدہی میاں نوازشریف میںایٹمی دھما کہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ اسی بنیاد پر یوم تکبیر کے موقع پر جناب مجید نظامی کو بھی انکی ملکی‘ قومی اور ملی خدمات پر خصوصی طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ایٹمی دھماکے کیلئے مجید نظامی کے دیئے گئے الٹی میٹم کی بنیاد پر ہی دھماکے کی تیاریوں کا آغاز ہوا۔ تمام پروگرام کو انتہائی خفیہ رکھا گیا اور انتہائی خاموشی کے ساتھ ہدف کے حصول کیلئے یکسو ہو گئے۔ ایٹمی دھماکے کیلئے مختلف سائٹس کا دورہ کیا گیا اور آخرکار تمام تر غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد بلوچستان کے ضلع چاغی کے پہاڑی مقام کو منتخب کر لیا گیا۔ ایٹمی ٹیم کے اہم ارکان دھماکے سے پہلے ہی اس مقام پر پہنچ چکے تھے اور تمام پہلوئوں سے جائزہ لینے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے دھماکے کی اجازت طلب کی اور پھر گرین سگنل ملتے ہی بٹن دبا دیا گیا اور پھر خوشی اور انبساط کے جذبات میں نعرۂ تکبیر سے چاغی کے پہاڑ لرز اٹھے۔ پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، بچے، بوڑھے، نوجوان مرد و زن دیوانہ وار گھروں سے باہر نکل کر نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے لگانے لگے، /28 مئی کا سورج ہماری آزادی و خودمختاری کے تحفظ کا ضامن بن کر طلوع ہوا تھا۔
ایٹمی دھماکوں پر پوری دنیا بالعموم اور بھارت بالخصوص سکتے کے عالم میں چلا گیا، اسے یہ گمان ہی نہیں تھا کہ پاکستان بے سروسامانی کے باوجود اس کے مقابلے کا ایٹمی ملک بن جائے گا۔ وہ جنوبی ایشیا میں خود کو ہی بڑی طاقت سمجھتا تھا اور اس زعم باطل میں مبتلا تھا کہ جنوبی ایشیا کا کوئی ملک بھی اس کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا لیکن پاکستان کی طرف سے ہونے والے ایٹمی دھماکوں نے اس کی قیادت کے اوسان خطا کر کے رکھ دئیے ، اس کا تکبر اور زعم ہوا ہو گیا اور اسے طاقت کے توازن کے خیال نے ہی عدم توازن سے دوچار کر دیا۔ یہ اس ایٹمی صلاحیت ہی کا اعجاز ہے کہ آج بھارت تمام تر جارحانہ عزائم رکھنے کے باوجود پاکستان کے ساتھ ٹکر لینے کی جرأت نہیں کر سکا۔ 1998ء کے بعد سے آج تک ایسے کئی مواقع آئے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکنے کے واضح امکانات پیدا ہو گئے تھے لیکن پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے باعث جنگ کی نوبت نہ آ سکی۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر پاکستان آج ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک نہ ہوتا تو بھارت اسکی سلامتی خدانخواستہ تاراج کرنے کے عزائم کب کا پایۂ تکمیل کو پہنچا چکا ہوتا کیونکہ ایک آزاد و خودمختار پاکستان اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ ہر لمحے اسی تاک میں رہتا ہے کہ کس طرح اس ملک خداداد کو (خدانخواستہ) ہمیشہ کے لیے تابود کر دے، اب چونکہ وہ پاکستان سے براہِ راست ٹکر لینے کی جرأت نہیں کر سکتا اس لیے وہ چوری چھپے وار کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔چنانچہ 5 اگست 2019ء کو اپنے انہی توسیع پسندانہ عزائم ہی کی تکمیل کے لیے اس نے اپنے غیر قانونی طورپر زیر تسلط جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے اپنے ملک میں ضم کرلیا ۔ وہ اپنی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی مدد سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتا ہے۔ پاکستان مخالف علیحدگی پسند تنظیموں کو لاجسٹک سپورٹ کے ساتھ ساتھ مالی امداد اور افراد کو ٹریننگ دینے سمیت ہر حربے استعمال کرتا ہے۔ وہ ففتھ جنریشن وار اور ہائبرڈ وار سمیت ہر قسم کی جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتا اور پاکستان میں بدامنی، انتشار اور فرقہ واریت پھیلانے کیلئے پاکستان دشمن عناصر کی خدمات حاصل کرتا ہے۔
ان حالات میں پاکستان کے متعلقہ ادارے بالخصوص عسکری قیادت اگرچہ اس کے توڑ کرنے کے لیے ہمہ وقت مستعد اور فعال ہے اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں، ان کے نیٹ ورک اور ان کی سرگرمیوں پر پوری نظر رکھے ہوئے ہے لیکن اس کے باوجود پاکستانی قوم کو بھی اس حوالے سے چوکنا اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی چالوں سے باخبر رہنے اور انکے عزائم سے بھی کماحقہ آگاہی کی ضرورت ہے۔ قومی یک جہتی اور اتحاد اس ضمن میں سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔ ہمیں اس سے ہمہ وقت لیس رہنا ہو گا۔
یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کی امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کی ٹرائیکا پاکستان کی ایٹمی پروگرام کے درپے ہے ۔مضبوط عسکری حصار میں ہونے کی بنا پر وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر براہ راست قبضہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں اس لیے اس کا ہدف پاکستان کو معاشی طورپر دیوالیہ بنانا ہے ۔کیونکہ معاشی طورپر کمزور ملک ایٹمی اثاثوں کی حفاظت نہیں کرسکتا ۔چنانچہ امریکہ اور اسکے حامی ممالک مختلف حیلوں بہانوں سے پاکستان کو اقتصادی طورپر غلام بنانے کے اقدامات کرتے رہتے ہیں ۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک ان کیلئے ٹول کا کام کرتے ہیں ۔ آج پاکستان اگر معاشی بدحالی کا شکار ہے تو اسکے پیچھے بھی پاکستان دشمن طاقتوں ہی کا ہاتھ ہے۔اس وقت بھی جب کہ پاکستان کو اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کیلئے مالی بیساکھیوں کی ضرورت ہے اوروہ آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلانے کو مجبور دکھائی دیتا ہے تو اس نے اس مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ارب ڈالر کی قسط کی ادائیگی سے قبل کڑی شرائط عائد کردی ہیں ۔پٹرولیم مصنوعات میں ایک دم 30 روپے فی لیٹر کا اضافہ بھی اسی بنیاد پر نئی مخلوط حکومت کی مجبوری بنا ۔جو ملک کے پسے ہوئے غریب عوام پر کسی ایٹم بم سے کم نہیں کیوںکہ اس اضافے کے نتیجے میں مہنگائی کا جو سونامی آئے گا وہ عوام ہی کو نہیں خود حکومت کو بھی بہا لے جانے کا باعث بن سکتا ہے ۔عوام الناس میں پائے جانے والے اضطراب اور مایوسی کی ایسی ہی کیفیت سے ملک دشمن قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں ۔ حکومت کو لہذا اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اپنی ترجیحات کا تعین کرنا اور عوامی مفاد کو مقدم رکھنا ہوگا۔ ایک ایٹمی پاکستان کو معاشی طورپر مضبوط اور مستحکم بنانے کی ضرورت ہے جس کیلئے سیاسی استحکام بنیادی شرط ہے ۔ بلاشبہ سیاسی اور معاشی طورپر ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان نہ صرف خطے میں امن کے قیام کا ضامن ہوسکتا ہے بلکہ عالم اسلام کیلئے بھی تقویت کاباعث بن سکتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بننے کی بھاری قیمت عالمی اقتصادی پابندیوں کی شکل میں ادا کرنا پڑی اور آج تک خمیازہ بھگتتا چلا آ رہا ہے لیکن ملک کی سلامتی اور بقاء کے لیے یہ قیمت کچھ بھی نہیں ہے ۔ پوری قوم شدید مالی بحران ، معاشی بدحالی اور اقتصادی بندشوں کے باوجود اپنی ایٹمی صلاحیت پر کوئی مفاہمت کر سکتی ہے نہ اس سے دستبردار ہونے کو تیار ہے۔ گو کہ ہم نے پوری دنیا کو یہ باور کرا دیا ہے کہ ہمارے کوئی جارحانہ عزائم نہیں ہیں ہم امن اور بقائے باہمی کے اصولوں کی پاسداری کرنے والے عالمی قوانین کی پابندی کرنے والے ذمہ دار ملک ہیں لیکن ہم اپنے دفاع کا بہرحال حق محفوظ رکھتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت ہمارے اس جائز اور قانونی حق سے ہمیں محروم نہیں رکھ سکتی۔
یومِ تکبیر پر مجید نظامی کی یادیں اورسیاسی ومعاشی استحکام کے تقاضے
May 28, 2022