بعض تاریخیں لوح ایام پر یوں مثبت ہوجاتی ہیں اور اقوام عالم میں کسی ملک اور قوم کی سر فراز کرتی ہیں کہ مورخ اس تاریخ کا سر سری تذکرہ کر کے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔کلینڈر کے اس خاکے پر پہنچ کر دینا اللہ کی سر زمین پر کسی جغرافیائی وحدت کے باسیوں کے عزم و استقلال اور اپنے شہریوں کے تحفظ اور اپنی مقدس زمین کی سلامتی کو یقینی بنانے جذبہ صادق کا اعتراف کرنا ہوگا اور خود اس جفرافیائی حدود میں بسنے والے انسان نسل در نسل سر اٹھا کر چلنے اور دشمن کی راہ میں سر سکندری حائل کرنے والوں کی سپاس گزاری کا اہتمام کرتی رہے گئی 28 مئی ایک ایسی ہی تاریخ ہے کہ عالم رنگ وبو پر سورج کی روشن کرنوں نے اپنی آب و تاب دکھائی تو اسلامی جمہوریہ پاکستان نے دشمن کے اسکی سا لمیت کے خلاف سیاہ عزائم اور نا پاک ارادوں کی خبرگیری کو ایسا چراغ روشن کرنے میں کامیابی حاصل کر لی جس کی موجودگی میں تکبر اور دہشت کے دیوقامت ارادے محض پر چھائی بن کر رہ جائیں گئے ۔یہی وہ تاریخ ہے جب پاکستان نے چاغی کی پہاڑی پر اٹیمی دھماکہ کرکے عالم اسلام کی پہلی اٹیمی قوت بننے کا اعزاز حاصل کیا اقوام عالم سکتے میں رہ گئی عالم بشریت میں اسی سوال کی گونج سنائی دی کہ کیا ایسا ممکن ہے ؟مگر ایسا ہو چکا تھا ۔عالم کفر کی کڑی نگرانی کے باجود وسائل کی ناہوت اور سائنسی علوم میں بظاہر کامل دسترس نہ ہونے بدگمانی کے تمام بت پاش پاش ہو گئے۔ مگر یہ ایک دن کی کہانی نہیں ہے اس عظیم مقصد کے حصول میں طویل ماہ و سال جس میں ایٹمی قوت بننے کا خواب دیکھنے والے اور خواب کو عملی تعبیر تک پہنچانے میں وطن عزیز کے سیاستدانوں، کار سرکار پر متعین اہلکاروں، سائنس پر عملی مہارت رکھنے والوں، اس منصوبے کے انتظامی معاملات کی نگرانی کرنے والے عسکری افراد، غرض ایک لمبی قطار ہے جس میں چمکتے چہروں اور روشن دماغ ایثار پیشہ محب وطن مسلمان شامل ہیں جنہوں نے برس ہا برس ایک ایسا راز سینوں میں چھپا کر گزار دیے اور کسی کو بھنک بھی نہ لگنے دی۔
محب وطن پاکستانیوں کی لمبی قطارمیں ہزاروں بے نام لوگ بھی ہیں اور ناموروں کی تعداد بھی کم نہیں۔ دو شخصیات ایسی بھی ہیں ہر چند جن میں سے ایک سیاست کی کٹھن راہ میں متنازع بنا دیا گیا مگر اس کا یہ اعزاز کوئی چھین نہیں سکتا نہ مورخ کسی سیاسی معصبیت کا شکار ہوکر اس کے خواب دیکھنے والے کو نظرانداز کرنے کی جرات کر سکتا ہے کہ یہ ایک عظیم سانحہ سے دو چار ہونے والی مملکت کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی خاطر ایک ایسا خواب دیکھا جس کو عملی جامعہ پہنانا ناممکن کی حد تک مشکل تھا مگر وہ ایسے ہی خوابوں کا سوداگر تھا سیاست کے حوالے سے کوئی کچھ بھی کہتا رہے مگر اس کا کوئی بدترین دشمن بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو نے بچے کھچے پاکستان ناقابل تسخیر بنانے کی حد تک ایٹمی قوت بننے کا ناممکن عمل خواب دیکھا اور اب کائنات نے اس کی آرزو کی صداقت کے اعتراف میں اسے ممکن بنا دیا۔پھر وطن سے دور دیار غیر میں تعلیم حاصل کرنے اور ہزار دلفریب ناقابل یقین مراعات اور اعزازات کو وطن کی محبت پر قربان کرنے والی شخصیت محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ہے جو ایک دل و دماغ میں علم و آگہی کے روشن قمقمے لے کر ارض موعود میں وارد ہوا اور اس عہد کے ساتھ کام کا آغاز کیا کہ وہ دشمن کی راہیں محدود کرنے اور عالم برادری میں سر اٹھا کر چلنے کو یقینی بنائے گااور شب و روز کی محنت ہنر مند ساتھیوں کی رفاقت اور آنے والے جمہوری آمر حکمرانوں کی تائید اور پشت پناہی سے ممکن بنا دیا یہ الگ بات ہے کہ اس ملک سے عہد وفا استوار رکھنے والے اکثر لوگ طالع آزمائوں کی بد خواہی کا نشانہ بننے اور ایک آئین سے بے وفائی سے مرتکب ایک متکبر انسان نے محسن پاکستان کی شخصیت کو اپنے ذاتی اقتدار کی خاطر گہنانے کی سعی نا مشکور کی مگر
یہ چاند وہ نہیں آجائے جو گہن میں
چمکے گا یہ تو تاقیامت تاروں کی انجمن میں
پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا خواب دیکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو اور اس کو عملی تعبیر دینے والے محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان وہ دو ناقابل فراموش شیخصت ہیں عیب جوئی کی ہزار کوشش کے باوجود جن کے نام اس ملک کی جفرافیائی سلامتی کے حوالے سے روش چراغ کی حیثیت رکھتے ہیں تا ہم وہ حضرات اور شخصتیں بھی بڑے اعزاز اور تکریم کی مستحق ہیں جہنوں نے دنیا بھر کی مخالفت اور عدوات کی حد تک ظالمانہ رویہ کے باوجود اس خواب کو عملی تعبیر کی راہ میں چٹان کی مانند کھڑی رہیں
ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کا ساحل تو نہیں
شوق سے شہر پناہوں لگا دو ہم کو
77کے بعد کے ادوار میں جنرل ضیاء الحق اس مشن کو جار ی رکھنے میں کامیاب رہے یہ عجیب دور تھا دنیا یقین کی حد تک اس گمان کا شکار تھی کہ پاکستان اٹییمی قوت بننے کی راہ میں تیز گامی سے محو سفر ہے۔ اخبار نویسی کی آڑ میں گورے جاسوس ای سیون کی بستی کے ارد گرد چکر لگاتے کہ کسی طور پرمحسن پاکستان کی شخصیت کو کیمرے میں مقید کر کے دنیاکو دیکھایا جائے مگر سلامتی کے ادارے بھی چوکس تھے اسی دور میں ہمارا ازلی دشمن جو پوری دنیا سے باہر پہلی اٹیمی قوت کے زعم میں وطن عزیز پر چڑھائی کے ارادے باند ھ رہا تھا اور یہ بات عام ہوئی کہ سرحد پر بھارتی فوجیں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی ہے اور اس گمان کا شکار ہیں کہ ارض موعود اٹیمی قوت کے مقابلے کی صلاحیت نہیں رکھتی پھر یہ ہوا کہ ضیاء الحق راجیو گاندھی کے دور میں ہندوستان کے دورے پر گئے ان کی وطن واپسی سے قبل ہندوستان کی فوجیں اپنے اصل مقام پر واپس جا چکی تھی یہ بھید سر گوشیوں میں عام ہوا تو جنرل ضیاء الحق نے راجیو گاندھی کے کان میں پاکستان کے اٹیمی قوت کی خبر ڈال دی تاہم اس کا سرکاری طور پر اقرار نہیں کیا گیا جنرل ضیاء الحق کے بعد غلام اسحاق خان منصب صدرات کے مستحق قرار پائے انہوں نے منتخب حکومت کے ساتھ جو بھی کیا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک المناک باب ہے مگر محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان اس بات کی شہادت دیتے ہیں جس پر پوری قوم کو یقین ہے کہ غلام اسحاق خان نے ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ یہ کام ہر قیمت پر مکمل ہونا ہے آپ کی کسی ضرورت کو پورا کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا جائے گا سو ایسا ہی ہوا پھر مسلم لیگ ن کے اقتدار کا دور اول شروع ہوااور اس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف کے اس عزم و ارادے کی صدا عام ہوئی تو مغرب کے پیٹ میں مروڑ ضرور اٹھے کلنٹن نے براہ راست وزیر اعظم پاکستان سے بات کی اور ہزارتر غیبات اور مفادات کے جال پھیلائے مگر اس کے سوا کوئی جواب نہ پا سکے کہ پاکستان اپنی آزادی کے ساتھ اپنی خود مختاری کا تحفظ بھی چاہتا ہے پھر 28مئی کا روشن اور تابدار سورج طلوع ہوا اور مملکت خداداد پاکستان اقوام عالم کی صف میں سر بلند ہوا ور عالم اسلام کی سلامتی کا ضامن ہوا مگر افسوس صد افسوس کہ ارض موعدد بیرون دشمن کے قدم روکنے کی قوت اور صلاحیت حاصل کرنے کے باوجود اندرونی خلفشار کا شکار کر دی گئی سیاست کو مذہبی تنازعات میں الجھا دیا گیا دہشت گردی کا بخار آخری حد کو چھونے لگا دشمن اپنوں کے روپ میں ہماری بربادی پر لگ گیا ہماری سیاسی قیادت کو بے اعتبار کر کے قوم کی یکجہتی کو شکار کیا جانے لگا ۔
مفاہمت مصالحت رواداری اور احترام کے جذبے اجنبی بنا دئے گئے دہشت گردی کا بخار کا شافی علاج ممکن ہو تو حیلے بہانوں سے بربادی کا سامان کیا گیا اور ہزار بار جو علاج کا تجربہ سے غیر مفید ثابت ہو چکا تھا وہی گولی قوم کو ایک با ر پھر نگلنے پر آمادہ کیا جانے کی تگودود ہورہی ہے پاکستان کے باسیوں کو بلا تفریق عقیدے اسی دعا کو عذر جان بنانا چاہیے تھا کہ اے پرودگار اے بے کسوں کے والی ایک خاک کے ذروں سے پھل اور پھول دینے والے اپنے محبوب کے غلاموں کے اس وطن کو سیاسی اور معاشی استحکام عطا فرما دہشت گردی سے نجات دے اور سیاست کو دہشت گردی کا روپ دینے والوں کو عقل سیلم عطا فرما
جہاں پنا ہ مجھے بازوں میں لے لیجے
میری تلاش میں ہیں گردش زمانے کی