نوٹس جاری کردیتے، تھوڑی عزت ہماری بھی ہے ، کسی نہیں اللہ کے غلام ہیں : جسٹس فائز 

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم انکوائری کمشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مزید کارروائی روک دی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کمشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت یہ کمیشن بنایا گیا، کم از کم ہمیں نوٹس ہی جاری کر دیتے، دوسروں کی عزت ہے تو تھوڑی ہماری بھی ہونی چاہئے، ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں، حلف کی پابندی نہ ہوتی تو معذرت کر کے چلا گیا ہوتا۔ انکوائری کمشن کا دوسرا اجلاس سپریم کورٹ کمرہ عدالت نمبر دو میں ہوا، اٹارنی جنرل منصور عثمان کمشن کے سامنے پیش ہوئے۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کمشن سے متعلق کوئی حکم نامہ جاری کیا ہے، ہمیں اس حکم نامے کی کاپی فراہم کریں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے حکم نامے کی کاپی عدالت کو فراہم کر دی اور پھر اٹارنی جنرل نے پانچ رکنی لارجر بنچ کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انکوائری کمشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں کیا گیا تو کام سے کیسے روک دیا۔ سپریم کورٹ رولز کے مطابق فریقین کو سن کر کوئی حکم جاری کیا جاتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کیوں کل کمرہ عدالت میں تھے نوٹس تھا یا ویسے بیٹھے تھے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے زبانی بتایا گیا تھا کہ آپ عدالت میں پیش ہوں، سماعت کے بعد مجھے نوٹس جاری کیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا شعیب شاہین نے کل یہ کہا کسی کی بھی آڈیو آئے اس جج کا معاملہ سیدھا سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دو، درجنوں ایسی شکایات آتی ہیں کیا ٹھیک کر کے سپریم جوڈیشل کمشن بھیج دیا کریں؟ آڈیو کی صداقت جانے بغیر کیا کسی کی زندگی تباہ کر دیں۔ کس نے آڈیو ریکارڈ کی وہ بعد کی بات ہے۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ سرپرائز ہوا ہوں آپ نے کل ان نکات کو رد نہیں کیا۔ شعیب شاہین نے میڈیا پر تقریریں کر دیں لیکن یہاں آنے کی زحمت نہ کی، پرائیویسی ہمیشہ گھر کی ہوتی ہے، کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جا سکتا، باہر سڑکوں پر جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں کیا یہ بھی پرائیویسی کے خلاف ہیں؟۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کم از کم ہمیں اس عدالتی کارروائی کے لیے نوٹس ہی جاری کر دیتے، کل کے حکم نامے میں میرے کیس کا ذکر بھی ہوا، میرے کیس میں معاملہ الگ تھا، کمشن نے اٹارنی جنرل کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کر دی جس پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے بتائے گئے پیرا گراف پڑھے۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ابھی وہ سٹیج ہی نہیں آیا تھا نہ ہم وہ کر رہے تھے۔ ایک گواہ اس وقت موجود نہیں۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے صحافی عبدالقیوم صدیقی کو روسٹرم پر بلا لیا اور سوال کیا کہ آپ کا کیا نام ہے؟، جس پر عبدالقیوم صدیقی نے جواب دیا کہ میرا نام عبدالقیوم ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج نے کہا کہ ہو سکتا ہے انہیں کمشن کی کارروائی پر کوئی اعتراض نہ ہو، ان کے دوسرے فریق نے ہمیں درخواست بھیجی، ان کے دوسرے فریق نے کہا وہ میڈیکل چیک اپ کے لیے لاہور ہیں، انہوں نے کہا جب لاہور آئیں تو ان کا بیان بھی لے لیں۔ کمشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو جج کا حلف پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ حلف میں لکھا ہے فرائض آئین وقانون کے تحت ادا کروں گا، یہ انکوائری کمشن ایک قانون کے تحت بنا ہے، کمشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت یہ کمشن بنایا گیا، ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں کئی بار بہت تکلیف دہ قسم کے ٹاسک ملتے ہیں۔ ہم وہ ٹاسک انجوائے نہیں کر رہے ہوتے مگر حلف کے تحت کرنے کے پابند ہیں۔ حلف کے تحت اس کی اجازت نہ ہوتی تو معذرت کر کے چلا گیا ہوتا، ہمیں کیا پڑی تھی ہمیں اضافی کام کا کچھ نہیں ملتا پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سانحہ کوئٹہ کا ذکر کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے اور کہا کہ ہمیں اس دردناک واقعہ جیسی تحقیقات کرنا پڑتی ہیں۔ شام کو ٹاک شوز میں کہا جائے گا ہم آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، ٹی وی پر ہمیں قانون سکھانے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہاں آکر بتاتے نہیں کہ سٹے ہو گیا ہے۔ ایک طرف پرائیویسی کی بات تو دوسری طرف خود اپنی آڈیوز پر ٹاک شو میں بیٹھے ہیں۔ ہم ٹاک شو میں جواب تو نہیں دے سکتے، بطور وکیل ہم بھی اس لیے آرڈر لیتے تھے اگلے روز جاکر متعلقہ عدالت کو آگاہ کرتے۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے سوال کیا کہ یہ ٹوئٹر کیا ہے اور ٹوئٹر ہینڈل کیا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹوئٹرایک سافٹ وئیر ہے، نام سے اکاو¿نٹ ہوتا ہے، ہیکر کا مجھے علم نہیں شاید میڈیا والوں میں سے کوئی جانتا ہو۔ جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہا کہ ہم مزید آگے نہیں بڑھ سکتے، ہم آج کی کارروائی کا حکم نامہ جاری کریں گے۔ سپریم کورٹ کے کل کے فیصلے کے بعد ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، ہم نے 4 بندوں کو نوٹس کر کے طلب کیا تھا۔ صرف ایک پیش ہوا باقی لوگوں کو بھی پیش ہونا چاہیئے تھا مگر یہاں کون پروا کرتا ہے، جو لوگ نہیں پیش ہوئے اب ہم کیا کر سکتے۔ بعد ازاں 3 رکنی کمشن نے کام روک دیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب ہم معذرت خواہ ہیں۔ سپریم کورٹ کا جوڈیشل آرڈر ہے، اس لیے مزید کام جاری نہیں رکھ سکتے۔ بعد ازاں مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمشن کی کارروائی کے معاملے پر جوڈیشل کمشن نے 27 مئی کی کارروائی کا ایک صفحہ پر مشتمل مختصر حکم نامہ جاری کر دیا۔

ای پیپر دی نیشن