ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی بے شک ہمارا دفاعی حصار ہے اور بھارت کے ساتھ ’’امن کی آشا‘‘ رکھنے اور دوستانہ تجارتی تعلقات گلوبل ویلیج کے فلسفے کے تحت استوار کرنے کے خواہش مند ہمارے لبرل طبقات چاہے جتنا بھی اپنا فلسفہ بگھار لیں‘ وہ اس سچائی پر پردہ نہیں ڈال سکتے کہ پاکستان کو اگر بھارت کے توسیع پسندانہ جارحانہ عزائم سے اب تک کسی چیز نے محفوظ رکھا ہوا ہے تو وہ صرف ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی کا خوف ہے ورنہ تو ہمیں دولخت کرنے کا موقع ضائع نہ کرنے والا بھارت ہمیں کب کا ہڑپ کر چکا ہوتا۔ ’’مہا بھارت‘‘ کے ماتھے پر یہ خوف کی تریڑی 1984ء میں اس وقت نمایاں ہوئی جب ہمارے جرنیلی آمر ضیاء الحق دوستانہ کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے بھارت گئے اور میچ کے اختتام پر راجیوگاندھی کے کان میں سرگوشی کی کہ آپ بے شک ہمارے ساتھ جنگ کا شوق پورا کرلیں مگر یہ جنگ اب روایتی جنگ نہیں ہوگی کیونکہ ہم ایٹمی ٹیکنالوجی سے مالامال ہو چکے ہیں۔ اس وقت دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کس طرح راجیوگاندھی کے حواس گم ہوئے اور انکے پائوں کے نیچے سے زمین سرکتی نظر آئی۔ آج ہمارے جن طبقات کو پاکستان کا ایٹمی قوت ہونا اچھا نہیں لگتا وہ درحقیقت پاکستان کو اسکے ازلی مکار دشمن بھارت کیلئے نرم چارہ بنانے کے ہمہ وقت متمنی رہتے ہیں۔ انکے اس خبث باطن کے آگے بند بھی ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی نے ہی باندھا ہے۔
اور بھائی صاحب! ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی ہمارا دفاعی حصار ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے توانائی اور صحت کے شعبوں کو بھی تو تقویت پہنچا رہی ہے۔ چین کے تعاون سے نصب ہمارے ایٹمی پاور پلانٹ گزشتہ دو دہائیوں سے جاری توانائی کے بحران پر قابو پانے میں معاون بن چکے ہیں اور اٹامک انرجی کمیشن کے ماتحت لاہور کا ادارہ انمول اور دوسرے کینسر ہسپتال ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی کی بدولت ہی کینسر کے لاکھوں مریضوں کے شافی علاج کے قابل ہوئے ہیں۔
تو جناب! پاکستان کو ایٹمی قوت سے سرفراز و ہمکنار کرنے میں ہماری جن جن قیادتوں اور شخصیات نے مستعد و مخفی کردار ادا کیا ہے‘ ان پر ہم کیوں نہ فخر کریں اور انہیں کیوں نہ اپنا قومی ہیرو قرار دیں۔ بے شک پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی کی جانب گامزن کرنے کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کے سر پر ہی سجے گا۔ ہمارے انکے ساتھ لاکھ نظریاتی اور سیاسی اختلافات سہی مگر انکے یہ کارنامے تو ہماری تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہو چکے ہیں کہ سانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد پڑ مردہ ہو کر بیٹھی قوم اور شکست خوردگی کے احساس میں جکڑی افواج پاکستان کو دوبارہ اپنے پائوں پر ذوالفقار علی بھٹو نے ہی کھڑا کیا تھا جنہوں نے 1972ء میں شملہ جا کر اندراگاندھی کے ساتھ برابری کی سطح پر ڈائیلاگ کئے اور نہ صرف بھارت کی قید میں موجود 90 ہزار کے قریب سپاہ پاکستان کو آزادی دلائی بلکہ 71ء کی جنگ میں بھارت کے قبضے میں جانیوالے پاکستان کے علاقے بھی واگزار کرائے۔ اندراگاندھی کے ساتھ طے پانے والے شملہ معاہدہ میں بے شک بہت سی خامیاں ہیں اور خود بھارت نے اس معاہدے کو پائوں تلے روندا ہے مگر اس معاہدے کے تحت ہی پاکستان کا ہزیمتوں کا سفر ختم ہوا تھا جو 71ء کی جنگ کے نتیجہ میں ہمارے پلّے پڑا تھا۔
یقیناً بھارتی جارحانہ عزائم کی تو کوئی انتہاء نہیں جس نے پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد بھی پاکستان کی سلامتی پر نظرِبد گاڑے رکھی اور اس مقصد کیلئے 1974ء میں پوکھران میں پہلا ایٹمی دھماکہ کرکے اپنے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کر دیا۔ بھارت نے یہ دھماکہ کسی اور کیلئے تو نہیں‘ صرف پاکستان پر اپنی دھاک بٹھانے کیلئے کیا تھا۔ چنانچہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ان بھارتی عزائم کے توڑ کی فوری تدبیر ڈھونڈلی اور اعلان کر دیا کہ ہم گھاس کھالیں گے مگر پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر رہیں گے۔ انہوں نے اس اعلان پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ہالینڈ میں مقیم نوجوان ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے رابطہ کیا اور انہیں پاکستان کا ایٹمی ہیرو بننے پر قائل کرکے کسی بھی طریقے سے سنٹری فیوجز پاکستان لانے کا مشن سونپ دیا۔ اس حوالے سے بھی بعدازاں کئی کہانیاں مشہور ہوئیں مگر ڈاکٹر اے کیو خان بہرصورت اپنے مشن میں کامیاب ہوئے اور اس طرح پاکستان میں ایٹمی ٹیکنالوجی کی تیاری کا آغاز ہو گیا۔ اگر بھٹو کی حکومت کا تختہ نہ الٹایا جاتا تو یقیناً وہ اپنے عہدِاقتدار میں ہی پاکستان کو ایٹم بم کا تحفہ دے جاتے۔ وہ تختہ دار پر چڑھے تو یہ بھی ان کا کریڈٹ ہے کہ انہوں نے نہ صرف جرنیلی آمر اور اپنے دوسرے مخالفین سے اپنی زندگی کی بھیک نہ مانگی بلکہ کسی این آر او کے تحت ملک سے فرار ہونا بھی انہوں نے اپنی سیاست کی توہین سمجھا۔
بھٹو کا تختہ الٹانے والے بے شک جرنیلی آمر تھے مگر استحکام و بقائے پاکستان کیلئے بھٹو کے شروع کردہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے مشن کو انہوں نے بھی آگے بڑھایا اور جنرل ضیاء الحق ہی کے دور میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ہاتھوں پاکستان ایٹمی قوت سے ہمکنار ہو گیا جس کا مصلحتاً اعلان نہ کیا گیا۔ پھر غلام اسحاق خان اور بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے اپنے ادوار میں اس مشن کی نگہبانی و نگہداشت کی اور پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کرنے کا کریڈٹ بہرحال میاں نوازشریف کے حصے میں آیا جبکہ اس کا موقع بھی بھارت نے ہی 3? مئی 1998ء کو یکے بعد دیگرے تین ایٹمی دھماکے کرکے فراہم کیا تھا۔ اب میاں نوازشریف کے یہ کہہ کر ڈنکے بجائے جاتے ہیں کہ انہوں نے امریکی صدر کلنٹن کی پاکستان کی اقتصادی امداد بند کرنے کی دھمکی کی بھی پرواہ نہ کی اور دھماکہ نہ کرنے کے عوض انکی پاکستان کو پانچ ارب ڈالر کی امداد کی پیشکش بھی ٹھکرادی تھی مگر حضور! انہیں اس راہ پر کون لایا اور کس نے انہیں چاغی کے پہاڑ پر جا کر ایٹمی بٹن دبانے پر مجبور کیا۔ وہ تو اس وقت شش و پنج میں پڑے تھے‘ پہلو بدل رہے تھے‘ کابینہ کے اجلاس میں گومگو کا شکار تھے‘ اپنی پسند کے دانشوروں سے مشورے کر رہے تھے مگر اس حوالے سے قومی اخبارات کے ایڈیٹروں کے ساتھ نشست میں انہیں امام صحافت مجید نظامی کی اس للکار کے آگے پسپائی اختیار کرنا پڑی کہ آپ ایٹمی دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دیگی‘ میں آپ کا دھماکہ کر دوں گا۔
میاں نوازشریف پھر بھی اتنے تھڑ دِلے ثابت ہوئے کہ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا کریڈٹ اسکے حقیقی خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو دینے کے روادار نہ ہوئے اور ان میں مین میخ نکالتے ہوئے ڈاکٹر ثمر مند مبارک کو انکے مدمقابل لے آئے۔ وہ تو 28 مئی کو ایٹمی دھماکے کیلئے ڈاکٹر قدیر خان کو چاغی لے جانے پر بھی تیار نہیں تھے۔ اس پر بھی محترم مجید نظامی نے ہی انہیں مجبور کیا اور پھر مشرف کے دور میں بھی جناب مجید نظامی نے ڈاکٹر اے کیو خان کے ساتھ وفا نبھائی اور انکی نظربندی کے پورے عرصے کے دوران نوائے وقت کے پلیٹ فارم پر انکی رہائی کیلئے اشتہاری مہم چلاتے رہے جس کی پاداش میں اس پورے عرصہ کے دوران نوائے وقت کیلئے سرکاری اشتہارات کا اجراء بند رہا۔ اور ڈاکٹر ثمر مند وہ ’’مایہ ناز‘‘ سائنس دان ہیں جن کے ہاتھوں سندھ میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے میں پاکستان کے اربوں روپے دفن ہو گئے۔ ڈاکٹر خآں نے تو اپنی زندگی کے آخری سانس تک اپنی جبری نظربندی کے دن حبّ الوطنی کے بے پایاں جذبے کے ساتھ کرب کے عالم گذارے جنہیں نواز چریف کے بعد عمران خان کی حکومت نے بھی نظر انداز کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڈی۔ ارے صاحب! اپنے اصل ہیروز کی پہچان تو کرلیا کریں۔ اور آج 28 مئی کو ہی یہ پہچان کرلیں۔ سیاست اپنی جگہ مگر ایٹمی صلاحیت کے ذریعے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے میں جس کا جو کردار اور کریڈٹ ہے اسے تسلیم تو کرلیں۔ اس کیلئے آپ کو بہرصورت اپنے قومی ہیروز کی فہرست ازسرِنو مرتب کرنا ہوگی۔