1968 میں صدرِ پاکستان جنرل محمد ایوب خان کے دورہء فرانس کے دوران اْس وقت کے فرانسیسی صدر ڈیگال نے پاکستان میں جوہری ری پراسسنگ کی پیشکش کو صدرِ پاکستان نے جنرل یحییٰ خان، اعلٰی سائنسی مشیر، ڈاکٹر عبدالسلام اور پلاننگ کمیشن کے نائب سربراہ، ایم ایم احمد کی مشاورت سے مسترد کر دیا تھا. 1971 میں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد بھارت کی مزید زیادتیوں سے وطن عزیز کو محفوظ رکھنے کے لئے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ پاکستان کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت اپنا تحفظ کرنے کی سنجیدگی سے جدوجہد کرے. بھارت اْس وقت دنیا کی تیسری بڑی زمینی فوج، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں بڑی بحریہ کے زعم میں پاکستان کو شب روز آنکھیں دکھا کر محظوظ ہوا کرتا تھا. سونے پر سہاگہ یہ کہ اس نے 16 مئی 1974 کو اپنی ریاست راجستھان میں مسکراتا بدھا smiling Bhudha کے نام سے ایٹمی دھماکہ کرکے ایٹمی ملک ہونے کا اعزاز بھی حاصل کر چکا تھا. اب تو اس کے تیور اور بھی بدلے ہوئے نظر آ رہے تھے.
اِن حالات میں پاکستان کے پاس دو ہی آپشن تھے. بھارت کی بالا دستی قبول کر لے یا جواب آں غزل کے طور پر ایٹمی دھماکوں کا جواب ایٹمی دھماکے کرکے دے. اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے دوسرا متبادل چنا اور ایٹمی قوت حاصل کرنے کے لئے اپنی تمام تر ذہنی صلاحیتیں آزما ڈالیں. انہوں نے اسلامی ممالک ایران، ترکی، شام، الجزائر، لیبیا، تیونس، مصر اور مراکش کے ہنگامی دورے کرکے اْن سے سفارتی اور مالی اعانت چاہی. قوم کو بھی جذباتی نعرہ دیا کہ گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے. قوم اس معاملے پر ان کی پشت پر کھڑی ہو گئی. امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی طرف سے ان کو عبرتناک انجام کی دھمکی بھی دی جس کی انہوں نے پرواہ نہیں کی۔
پاکستان نے ایٹمی پھیلاؤ والے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوتے ایٹمی پروگرام پر پیش رفت کا آغاز کر دیا. ڈاکٹر عبدالسلام کی جگہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ذمہ داریاں سونپ دی گئیں. اس تبدیلی سے حکومت اور عوام کے اعتماد میں مزید پختگی آئی۔ ساتھ ہی ساتھ وزیراعظم پاکستان نے فرانس کو جوہری ری پراسسنگ کی تجدید کے لئے قائل و مائل کیا. 1977 میں صدر ضیاء الحق کی حکومت نے فرانس کے علاوہ کینیڈا اور جرمنی سے بھی جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے لئے اہم اقدامات کئے۔ کھلی امریکی مخالفت کے بعد پاکستان کو پھونک پھونک کر ہر قدم اٹھانے کی ضرورت تھی اور اس نے ایسا ہی کیا. حساس آلات کی خریداری اور پھر ان کی پاکستان منتقلی ایک بہت بڑا مسئلہ تھا. امریکہ نے فرانس، جرمنی اور کینیڈا پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے پروگرام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں تیز تر کر دیں تھیں. ان نامساعد اور ناموافق حالات میں حکومت کا عزم اور بھی پختہ ہوتا گیا. پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی شب و روز محنت کی بدولت مشکلیں مرحلہ وار آسان ہوتی چلی گئیں. مغربی جرمنی نے امداد جاری رکھی. سپیکٹرو میٹر، ٹریشئیم اور دیگر اہم اور حساس آلات کی پاکستان کو سپلائی میں کوئی خاص رکاوٹ نہ آنے دی. مذکورہ آلات مختلف راستوں سے پاکستان منتقل ہوتے رہے. جنرل ضیاء الحق نے سفارتی سطح پر بھی بھرپور کردار ادا کیا. مسلہء افغانستان کی وجہ سے امریکی حکومت کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کافی حد تک سمجھوتہ کرنا پڑا. 1974 میں یورینیم کی افزودگی کا عمل شروع ہوا اور 1982 تک پاکستانی ٹیم نوے فیصد افزودگی کے قابل ہو گئی. ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بقول پاکستان نے 1984 میں ایٹمی صلاحیت بھی حاصل کر لی تھی۔
فرعونیت کے نشے میں دھت بھارت نے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد 1986 میں آپریشن بریسٹ اسٹیکس کے نام سے راجستھان میں چھ لاکھ فوج پاکستانی سرحد کے قریب ڈپلائی کر دی. جنرل ضیائ الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کے بہانے راجیو گاندھی سے ائیر پورٹ پر مختصر سی ملاقات میں راجیو گاندھی کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دی. جس کے نتیجے میں اس کو جنگ کا چڑھا ہوا بخار سے فوری افاقہ ہوا. پھر 11 اور 23 مئی 1998 کو بھارت نے 5 ایٹمی دھماکے کر دیے. اب بھارت کی فرعونیت کا جواب دینا پاکستان کے لئے بہت ضروری ہو گیا تھا. مگر دنیا اور امریکہ نے پورا دباؤ پاکستان پر بڑھا رکھا تھا کہ کسی بھی صورت میں پاکستان ایٹمی دھماکہ نہ کرنے پائے. پاکستانی حکمرانوں کو کبھی ڈرا دھمکا کر اور کبھی بھاری امداد کا لالچ دے کر دھماکے کرنے کے ارادے سے باز رکھنے کی کوششیں کی گئیں. اس وقت نواز شریف ملک کے وزیراعظم تھے. ان پر دباؤ بڑھا تو انہوں نے اپنی کابینہ اور مختلف رفقاء سے مشاورت کا عمل شروع کر دیا. اکثریت نے دھماکے کرنے کے حق میں ووٹ دیا. عسکری قیادت سے بھی اس سلسلے میں ملاقاتیں ہوئیں. نوائے وقت کے مدیر سے بھی رائے لی گئی اور انہیں بتایا گیا کہ حکومت پر انتہا درجے کا ناقابلِ برداشت دباؤ ہے. یہ بھی بتایا کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہو جائیں گی. مدیر نوائے وقت سے دیا گیا ایک بڑا تاریخ ساز مشورہ منسوب ہے . کہا کہ اگر آپ ایٹمی دھماکے نہیں کریں گے تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی. چنانچہ بھارت کے ان پانچ دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998 کو پاکستان نے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں چھ کامیاب دھماکے کئے. اس واقعہ کی مناسبت سے اس دن کو یومِ تکبیر کا نام سے پکارا گیا.
قوم دھماکوں کے جواب میں خوشی اور مسرت کے اظہار کے لئے سڑکوں پر نکل آئی. شکرانے کے نفل ادا کئے گئے، مٹھائیاں تقسیم کی گئیں اور جذباتی نعرے لگائے گئے. پورے عالمِ اسلام میں اس دن ایک جشن کا سا سماں تھا. اسلام آباد میں زیرِ تعلیم اسلامی ممالک سے آنے والے طلباء کا جوش و ولولہ بھی دیدنی تھا جو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا. اب بھی ذہن میں وہ مناظر ابھرتے ہیں تو آنکھیں خوشی سے نم ہو جاتی ہے. اس دن سے ہم اپنے سب سے بڑے دشمن سے بھارت کی کھلم کھلا سازشوں اور چیرہ دستیوں سے کافی حد تک محفوظ سمجھے جانے لگے.
ایٹمی دھماکوں کے بعد ایک بات جو ہر پاکستانی کے دل کو کھٹکتی رہتی ہے وہ یہ ہے کہ ایٹمی دھماکوں کی ابتدا اور پیش رفت میں جن شخصیتوں نے کلیدی کردار ادا کیا، ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوا. بانیئ پروگرام ذوالفقار علی بھٹو کو تختہئ دار پر لٹکا دیا گیا. جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے. ڈاکٹر عبدالقدیر کو ان کی موت تک نظر بندی کی حالت میں رکھا گیا. نظر بندی کے دوران ان کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک رکھنے کی کوئی خاص وجہ تو بظاہر نظر نہیں آتی. ماسوائے اس کے کہ:
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
دعا ہے کہ اللہ پاکستان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے! آمین ثم آمین ۔
یومِ تکبیر منانا ضروری ہے؟
May 28, 2023