یومِ تکبیر اور بھٹو شہید

May 28, 2023

بیگم بیلم حسنین

بیگم بیلم حسنین 
مئی میرے قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو کی یاد بہت شدت سے دلاتا ہے مگر مختلف لیڈر اس دن کو اپنا کارنامہ قرار دیتے ہیں۔حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ تاریخ کو مسخ کرنے والوں کو تاریخ معاف نہیں کرتی۔ یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ ایٹم بم شہید ذوالفقار علی بھٹو کا کارنامہ تھا جس کی وجہ سے پاکستان تو مضبوط ہوگیا مگر بھٹو شہید کو نہ صرف اپنی جان بلکہ اپنی لاڈلی بیٹی اور بیٹوں کی جانیں بھی قربان کرنا پڑیں۔ بھٹو خاندان نے اس کارنامہ پر 5 جنازے اٹھائے اس کارنامہ میں ہم ڈاکٹر قدیر خان فخر پاکستان کے نام کو بھی فراموش نہیں کرسکتے۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر ثمر مبارک منداور دیگرخاموش مجاہد بھی ہیں جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا ہم ان سب کو خراج تحسین اور سلام پیش کرتے ہیں مگر بھٹو خاندان کی طرح سے کسی کو جان سے نہیں مارا گیا اور نہ کسی کے گھر سے جنازے اٹھے کیونکہ بنیادی طور پر یہ نظریہ بھٹو کا ہی تھا۔ وہ ہی سیٹھ عابد جواس وقت پاکستان کے ایک بڑے سونے کا تاجر تھے اور بعدازاں پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک ہوگئے تھے آج شہر خموشاں کے باسی ہیں۔ اگر ہم سے پوچھا جائے تو سیٹھ عابد کا خاموش کردار پاکستان کیلئے ایک بڑی قربانی ہے ان کے ساتھیوں نے بھی اہم کردار ادا کیا جبکہ ڈاکٹر قدیر خان کے ساتھیوں میں کرنل کبریا، حسین احمد شیرازی سرفہرست تھے۔ ڈاکٹر قدیرخان کونیوزی لینڈ سے سیٹھ عابد لیکر آئے یہ اس وقت کے عظیم سائنسدان تھے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے تمام پلان بنایا اور ان سب محب وطن اور غیرت مند افراد نے بھٹو شہید کا ساتھ دیا۔ غرض امریکہ کی شدید مخالفت اور دھمکیوں کے باوجود یہ پروگرام جاری و ساری رہا۔ پاکستان غریب ملک تھا۔ مگر جب 1974ء  میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقدکروائی اور تمام اسلامی ممالک کو بتایا کہ وہ اسلامی ملکوں کی مضبوطی کیلئے ایٹم بم بنانا چاہتے ہیں مگر پیسہ نہیں ہے تو سعودی عرب کمے شاہ فیصل، لیبیا کے کرنل قذافی، فلسطین کے یاسر عرفات سمیت تمام اسلامی ملکوں کے سربراہوںنے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بھرپور حمایت کی اور پیسہ بھی دیا جس سے بھٹو شہید کا حوصلہ بلند ہوااور انہوں نے اس کام کو تیزی سے جاری رکھا اور اپنے ا?خری ایام تک وہ اس پر بھرپور طریقے سے کام کرتے رہے۔ ڈاکٹر قدیر خان لیبارٹری کی تعمیر بھی اس ایٹمی پروگرام کا حصہ تھی اس کیلئے کہوٹہ میں میرے شہید قائد نے جگہ کے انتخاب میں نہ صرف ڈاکٹر قدیرخان کا بھرپور ساتھ دیا بلکہ مکمل طورپران کے حوالے کردی تھی اور کہا تھا ڈاکٹر صاحب آپ کو ایک ایک چیز فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے۔ لیکن آپ اسے میری زندگی میں مکمل کردیں اور ڈاکٹر قدیر خان نے ایسا ہی کیا دن کو دن، رات کو رات نہ سمجھا کیونکہ امریکہ کا بہت زیادہ دبائو تھا مگر شہید بھٹو بھی ڈٹ کر کھڑے تھے اور بالآخر پاکستان کی عظیم فوج نے سائنسدانوں کے ساتھ ملکر ایٹم بم بنالیا جب ذوالفقار علی بھٹو کو بتایا گیا تووہ خوشی سے رو پڑے اور کہا اللہ تیرا شکر ہے مگر یہاں سے ہی ان کا زوال شروع ہوگیا کیونکہ پاکستان دنیا کی چھٹی (ایٹمی قوت) بن چکا تھا اوریہ بھٹو شہید کی خواہش تھی۔ امریکہ نے پاکستان میں 9 ستارے اکٹھے کیے جن کا نعرہ نظام مصطفی کا تھا۔ شہید بھٹو نے جب مغرب کو للکارا تو امریکہ کی اشیر باد سے دائیں اور بائیں بازو کی مختلف الخیال کی حامل نو جماعتوں نے ان کے خلاف تحریک شروع کر دی۔ ان سیاسی جماعتوں میں آھ کی وہ تمام جماعتیں شامل ہیں جو جمہوریت کا راگ تو الاپتی ہیں لیکن ایک منتخب جمہوری حکومت کے خلاف صف آراء ہو گئیں۔اس تحریک کا سربراہ بھی ایک آمر ضیاء الحق تھا جو اس وقت بھٹو شہید سے ذاتیات پر اتر آیا تھا اس نے جنگل کا قانون قائم کردیا تھا۔ نظریات دفن ہوگئے اورملک کی تاریخ بدلنے والے عظیم قوم پرست لیڈر بھٹو شہید کو مغرب کے راستے سے ہمیشہ کیلئے ہٹا دیا گیا۔ آج پھر 28مئی کو شہید ذوالفقار علی بھٹو نہیں ہیں ،مگر ان کی یاد ستاتی ہے۔آج جو مرضی کریڈٹ لینے کی کوشش کرے مگر پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ بھٹو نے نے اس تاریخی کارنامہ کیلئے جان کی قربانی دی اور آجتک زندہ و جاوید ہیں۔

مزیدخبریں