یوم تکبیر : داستانِ عزم و ہمت

ہارون الرشید 
چراغِ مصطفویٰؐ، بادِ مخالف کے باوجود ازل سے تا امروز منور ہے اورجب تک آخری کلمہ گو زندہ ہے ، ان شاء اللہ منور رہے گا۔ قیامِ پاکستان سے آج تک ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے ہمیں تسلیم نہیں کیا۔ یہود وہنود کو جب بھی موقع ملا انھوں نے مکاری و چالبازی کا مظاہرہ کیا۔ بفضلِ تعالیٰ اہل پاکستان خواہ ان کا انفرادی کردار کچھ بھی ہو ‘ اللہ اور اسکے رسولؐ کے نام پر فوراً ہی مرمٹنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ عالم اسلام پاکستان ہی کو اپنا ممدو معاون سمجھتا ہے۔ عالمِ اسلام میں پاکستان کی مرکزی حیثیت کی وجہ سے پاکستان کا مستحکم او رمربوط و مبسوط ہونا لازمی امر ہے کیوںکہ دنیا کے خطے پر یہ واحد مملکت ہے جس کا تشخص نظر یاتی طور پر ابھرا ہے۔ نظریہ اسلام ہی نظریہ پاکستان ہے۔اس کی بقاء و سلامتی کا تحفظ دراصل عالمِ اسلام کا تحفظ ہے۔
1947ء سے آج تک بھارت نے جب بھی اپنے ناپاک عزائم کے لیے پا کستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا ‘اسے منہ کی کھانا پڑی۔1965ء کی جنگ نے میدانِ بدر کی یاد تازہ کر دی۔ 1971ء کی جنگ‘دراصل جارحیت تھی۔ 
 11مئی او ر 13مئی 1998ء کو اس نے چھٹی اٹیمی قوت بننے کا اعلان کرنے کے لیے اٹیمی دھماکہ کر دیا۔ بھارت کے پانچ اٹیمی دھماکوں نے نہ صرف پاکستان کوبل کہ عالمِ اسلام کوبہت پر یشان کر دیا۔ 1965ء کی جنگ کی طر ح پوری قوم بھارتی ایٹمی سرگرمیوں کا جواب دینے کے لیے متحداور سینہ سپر ہوگئی۔ اس صورتحال کے پیش نظر امریکہ ، برطانیہ، امریکہ،فرانس،جرمنی اور دیگر بڑی قوتوں نے سر جوڑ لیے۔ پاکستان کو دبانے، دھمکانے، لالچ دینے او ر دیگر کارروائیوں سے مرعوب کرنے کی کوشش کی۔ کئی اپنوں نے کہا کہ اٹیمی تجربہ کرنا پاکستان کے حق میں نہیں ہے‘ قلم فروش ‘ ضمیر فروش او رادب فر وش طبقہ نے پاکستان کے اٹیمی دھماکہ کرنے کو انسان دشمنی قرار دیا۔ حکومت نے عالمی دبائو اور پابندیوں کے خو ف کے با وجو دبھارت کے ایٹمی دھماکے کا منہ توڑ جواب دینے کا عزم کر لیا۔ آخر وہ لمحہ آن پہنچا‘ جب نصر تِ خدا وندی نے پوری قوم کے اذہان پر دستک دی۔ 28 مئی 1998ء جمعرات سہ پہر 3 بج کر 16 منٹ پر فخرِ پاکستان ‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بٹن دبایا نعرہ تکبیر ‘ اللہ اکبر سے روح پرور منظر سامنے آیا۔ چشمِ زدن میں بلوچستان کی چاغی پہاڑیاں اپنی قسمت پر ناز کرنے لگیں۔ دھماکہ ہوتے ہی پہاڑ کی رنگت بدل گئی ‘ فضا روشن ہوئی ‘ رحمت و نصرت ِ خدا وندی نے سائنس دانوں کے چہرے چوم لیے ۔
حکومت نے28مئی کو ’’یومِ تکبیر‘‘ کا نام دیا۔ جمہوری انداز سے اس نام کا انتخاب کیا گیا۔ جمہوریت میں سب کچھ ہی ممکن ہے۔ لہٰذا یو م تکبیر کا ہی اعلان ہوا۔ یو مِ تکبیر دراصل یو مِ بقا‘ یومِ استحکام ‘ یومِ وفا ‘ یومِ تجدیدعہد ’یومِ سلامتی ‘ یومِ فتح او ریومِ یک جہتی ہے۔ مسلمان جب بھی میدان کارِ زار میں اْتر تا ہے تو نعرۂ تکبیر بلند کرتا ہے۔28 مئی کو یومِ تکبیر منا کر ہمیں یکجہتی کا اظہار کر نا چاہیے۔ 
یومِ تکبیر کے سنجیدہ تقاضے ہیں لیکن ایٹمی تجربے کے چند سال بعد یہ دن عجیب و غریب انداز سے منایا گیا۔ یو مِ تکبیر نے یومِ تکبرکی شکل اختیار کر لی۔اسے یومِ تشکر کے بجائے یومِ غرور بنا دیاکیوںکہ ڈھول کی تھاپ پر رقص ‘بینڈ باجے ’’ہے جمالو ‘‘کا انداز یومِ تکبیر کی توہین ہے۔ اسلامی و قومی فتوحات نیز اپنے اکابر کے دن منانا نسلِ نو کے لیے تحریک کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ دن جہاں ہمیں اپنی فتح کی یاد دلاتا ہے۔وہاں ہمیں سوچنے پر مجبور بھی کر تا ہے کہ ہمیں دشمن کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیے۔بھارت اگنی ‘ پر کاش ‘ پر تھوی‘ استرااور اسی طرح کے کئی میزائل عالمی سطح پر بطور تجربہ دکھا چکا ہے۔عالمی برادری تو خاموش رہی لیکن پاکستان نے بھارت کے میزائلوں کے خلاف غوری او رشاہین میزائلوں کے تجربات کر کے بھارت کے غبار ے سے ہوا نکال دی۔ قوم کو دفاعِ وطن سے کسی طور بھی غفلت نہیں کرنی چاہیے۔ مئی 2003ء میں بھارتی وزیر اعظم واجپائی کو پاک بھارت مذاکرات کا خیال آیا ایک طرف بھارت مذاکرات کیلئے دعوت دے رہا ہے تو دوسری طرف میزائلوں کے تجربات جاری ہیں۔ خطرات کے پیش نظر ہمیں اپنی سلامتی و بقاء کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ دنیا میں وہی قومیں پروان چڑھتی ہیں جو اپنا قومی دفاع مضبوط رکھتی ہیں۔ حکومتیں تو تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن ریاست قائم رہنے والی ہے۔ ریاستِ مدینہ کے بعد پاکستان ایک اسلامی ریاست بن کر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان پر رب العالمین اور رحمت للعالمین ؐ کا سایہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس پر ٹوٹنے والے مظالم اسے ہڑپ کر جاتے۔پڑوسی ممالک کی لالچی نظریں ،بھارت کے عسکری حملے ،تباہ کن زلزلے ،طوفانی بارشیں، ریلوے لائنز تک کو بہا دینے والے سیلاب،کرپشن ، اقرباء پروری ، بھتہ خوری،منی لانڈرنگ ، پاکستان کی دولت بیرونِ ملک منتقل کرنے کا عمل، ٹیکس چوری، منافع خوری، ذخیرہ اندوزی،حیران کن ملاوٹ، اختیارات کا ناجائز استعمال، لوٹ مار،ہیراپھیری ، قتل و غارت، چوری و ڈکیتی ، اغواء برائے تاوان، مکاریوں اور غداریوں کے باوجود اس ملک کا قائم رہنا یقینا کسی غیبی قوت کا ہاتھ ہے۔ بھارت کا جنگی جنون کم نہیں ہوا۔ 26 اور 27 فروری 2019ء کو بھارتی جارحیت کا چہرہ ایک بار پھر کھل کر سامنے آیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے 27 فروری کو پاکستان ائیر فورس نے بھارت کے دو طیارے مار گرائے۔ اْن کا پائلٹ ابھی نندن گرفتارکر لیا گیا۔ اْس نے پاک آرمی کی صلاحیتوں کا برملا اعتراف کیا۔ نعمان اور حسن صدیقی اس معرکہ میں ہیرو شہباز ثابت ہوئے۔ حکومت نے ناجانے کیوں بھارتی پائلٹ اْس کی حکومت کے سپرد کر دیا؟ یہ الگ بات ہے کہ بھارتی حکومت نے اسے ہماری بزدلی قرار دیا۔ مودی سرکار سے خطے میں امن کی کوئی توقع نہیں۔ سیاست دانوں کی رسہ کشی ‘ معاشی عدم توازن حتیٰ کہ کرسی کی خاطر ملک دشمنی اورسازشوں کے سراْٹھانے سے اہلِ وطن پریشانی کا شکار ہیں۔ محبِ وطن قلمکاروں ‘ فنکاروں ‘ شاعروں ‘ ادیبوں ‘ خطیبوں‘ صحافیوں ‘ سیاست دانوں ‘ علمائے کرام او رذرائع ابلاغ کا فرض ہے کہ وہ قو م کو تاریکیوں سے روشنی کا راستہ دکھائیں۔ قنوطیت سے اْمید کی راہ دکھائیں۔ اللہ کرے یومِ تکبیر ہمارے لئے روشنی کا سفر ثابت ہو۔ ایسی روشنی جس میں ہمیں ہمارا اپنا چہرہ صاف طورپر دکھائی دے۔وہ لوگ جو وطن کی مانگ میں خلوص کا سندور بھرتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں۔ تاریخ ایسے ہی لوگوں کو زندہ جاویدرکھتی ہے۔ ہماری تاریخ ایسے ہی کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ میاں شہباز شریف سے توقع تھی کہ وہ یوم تکبیر شایان شان منانے کا اہتمام کریں گے 
9مئی 2023ء بروز منگل جو سانحہ رونما ہوا اْس پر محبانِ وطن کفِ افسوس مل رہے ہیں۔ شہداء کے گھروں میں اْداسی ہے کہ ہمارے نوجوانوں نے جس قوم کے لیے قربانیاں دیں آج ایک گروہ اْن شہداء کی بے حرمتی میں مصروف ہے۔ شہداء کی تصاویر کو ڈنڈوں سے پیٹا گیا۔ ایک منظر تو اس قدر جان لیوا تھا کہ طالب علموں نے کسی مقام پر کلمہ طیبہ کے بورڈ کی بھی بے حرمتی سے دریغ نہیں کیا۔ لاہور میں کورکمانڈر ہائوس میں داخل ہو کر اْسے نہ صرف تباہ کیا بل کہ وہاں کا قیمتی ساز و سامان بھی چرایا گیا۔ قائداعظم محمد علی کے جناح ہائوس لاہور کو بھی نذرِ آتش کر دیا گیا۔ فضائی جنگ کا عالمی ریکارڈ قائم کرنے والے ایم ایم عالم کی بہادری کو ہم نے آگ لگا دی۔ ایم ایم عالم نے بھارت کے مجموعی طور پر 9 طیارے مار گرائے۔ وہ 18 مارچ 2013ء کو ہم سے بچھڑ گئے۔ آج اْن کے روح کس قدر تڑپ رہی ہو گی کہ ہم نے اس کے ماڈل طیارے کو میانوالی میں نہ صرف مختلف طریقوں سے توڑا پھوڑا بل کہ اْسے بھی آگ لگا دی۔ کار گل جنگ کے ہیرو اور نشانِ حیدر پانے والے کیپٹن کرنل شیر خان کے مجسمہ کو اْٹھا کر پھینکنے والے نے اپنی بہادر ی دکھائی۔ یہ وہ کیپٹن شیر خان تھا جس نے تین دن بھوک پیاس برداشت کی۔ شاہینوں کے شہر سرگودھا چوک کلب روڈ پر یادگارِ شہداء بنائی گئی جس پر نامور ہوابازوں کی تصاویر آویزاں تھیں۔ 9مئی 2023ء کی شام اس یادگار کو تباہ کر دیا گیا۔ کچھ لوگوں کے منع کرنے کے باوجود جنونی گروپ نے ان شہداء کیخلاف نہ صرف نعرے بازی کی بل کہ قیمتی تصاویر مسخ کر دی گئیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟ جن کی وجہ سے پاکستان کی دنیا بھر میں تذلیل ہوئی۔ یہ دن ہمارے لیے یومِ تفاخر ہے جب ہم نے بھارتی ایٹمی تجربے کا منہ توڑ جواب دیا۔ ہمارے نوجوان اپنی تاریخ کو بھولتے جا رہے ہیں۔ ہمارے اسلاف نے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں لازوال قربانیاں دی ہیں۔ جلسے جلوس اور احتجاجوں نے پاکستان کی آزادی کا مقصد بھلادیا ہے۔ نصاب تعلیم میں یومِ تکبیر اور مشاہیر کے کارناموں کو شامل کرنا حکومت کا فرض عین ہے۔ آئیے! یوم تکبیر مناتے ہوئے اس بات کا عزم کریں کہ ہم پاکستان کی بقاء و سلامتی کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ پاکستان ہمارے لیے سائبان ہے۔ 
پاکستان غیرت ملی کا پاسباں ہے‘ یہ وطن جنت نشاں ہے‘ یہ اپنی ذات میں گلستاں ہے‘ یہ نور کا پیامبر ، اک مسکراتی کہکشاں ہے‘ یہ رحمت یزداں کا دلکش ارمغاں ہے‘ یہ کوشش پیہم کا اک سِرِّنہاں ہے‘ یہ عدو کے سر پر لہراتی تیغِ برّاں ہے۔پاکستان جذب و عمل کی داستاں ہے‘ یہ مرے ماضی کا ترجماں ہے‘ یہ جانبِ منزل مثل کارواں ہے‘ پاکستان ہر پاکستانی کا امتحاں ہے‘ یہ ہمارا اپنا مکاں ہے۔ہمارے انفرادی زندگی پاکستان سے وابستہ ہے۔ نسل ِ نو کو پاکستان سے محبت سکھانے کے لیے یومِ تکبیر ایسے ایام منانا بہت ضروری ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن