یوم ِ تکبیر: ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہونگی

ڈاکٹر سلیم اختر 
 60ء کی دہائی میں پاکستان کو مصدقہ اطلاعات ملیں کہ بھارت ایٹم بم بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اس خبر کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے  11 دسمبر 1965ء کو لندن کے ایک ہوٹل میں صدر ایوب اور ڈاکٹر منیر احمد کی ایک ملاقات کروائی جس میں ایوب خان کو قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ بھارتی عزائم کے تناظر میں پاکستان کا ایٹمی اسلحے کی دوڑ میں شامل ہونا مجبوری بن چکا ہے۔ لیکن صدر ایوب کسی صورت نہیں مان رہے تھے۔چونکہ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ تھے اور اتنا بڑا فیصلہ کرنا انکے اختیار میں نہیں تھا۔ 1974ء میں بھارت نے ’سمائیلنگ بدھا‘‘ کے نام سے ایٹمی دھماکہ کیا۔ اس دھماکہ کے بعد اپنے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے بھارت پاکستان کی سالمیت کے درپے ہو گیا اورطاقت کے زعم میں خونخوار بھیڑیا بن کر اسے ہڑپ کرنے کی دھمکیاں دینے لگا۔ بالآخر پاکستان کے پالیسی سازوں کو قائل کیا گیا کہ پاکستان کو اپنی سلامتی کیلئے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے زور بازو سے ہی کچھ کرنا ہوگا۔ اس وقت کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے فوری طور پر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ بھارتی دھمکیوں کا توڑ کیا جائے اور خطے میں طاقت کا توازن برابر کیا جاسکے۔ اس میں اہم ترین کردار بھٹو ہی کا تھا جو اس وقت وزیراعظم کی حیثیت سے فیصلہ کرنے کی پوزیشن آچکے تھے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن تو 1956ء ہی قائم ہو چکا تھا لیکن اس کا مقصد ایٹم بم بنانا ہرگز نہیں تھا۔ 20 جنوری 1972ء کو وزیراعظم بھٹو کی زیرصدارت ملتان میں پاکستان کے سرکردہ سائنس دانوں اور انجینئرز کی ایک میٹنگ ہوئی جسے ’’ملتان میٹنگ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میٹنگ میں حکومت نے ہر قیمت پر ایٹم بم بنانے کا فیصلہ کیا اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے اس وقت کے سربراہ منیر احمد کی سربراہی میں اس سلسلے میں کام کا آغاز کیا گیا۔ 1974ء  میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں شمولیت اختیار کی اور ’’کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں پاکستان نے اپنے دفاع کیلئے باقاعدہ ایٹم بم کی تیاری کا آغاز کیا گیا۔ 
1998ء میں بھارت نے ’’اپریشن شکتی‘‘ کے نام سے پوکھران کے مقام پر پانچ ایٹمی دھماکے کئے۔ اسے پورا یقین تھا کہ 74ء کے دھماکہ کی طرح پاکستان ان دھماکوں کا بھی جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ عالمی برادری بالخصوص امریکہ نے بھارت کے ان پانچ دھماکوں کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا حتیٰ کہ عالمی سطح پربھی بھارت کے اس اقدام کیخلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ پاکستان کو خطے میں طاقت کے بگڑتے توازن اور بھارت کے ہاتھوں اپنی سالمیت کی فکر لاحق ہوئی تو اس نے اپنی بقاء و سلامتی کی خاطر ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے بعد امریکہ سمیت دیگر ممالک نے پاکستان پر شدید دبائو ڈالنا شروع کر دیا اور دھمکیاں دیں کہ اگر پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو اسے ان کا خمیازہ عالمی پابندیوں کی صورت میں بھگتنا پڑیگاجبکہ بھارتی دھماکوں پر انہوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔ تذبذب کے اس عالم میں پاکستانی قوم کو دو ہفتے انتہائی بے چینی سے گزارنے پڑے۔ اس وقت کے وزیراعظم میاںنواز شریف بیرونی دبائو کا شکار ہو کر گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہو چکے تھے جبکہ ان پر پاکستانی عوام کا شدید دبائو تھا کہ ایٹمی دھماکے کرکے بھارت کو ہر صورت منہ توڑ جواب دیا جائے۔ وزیراعظم نوازشریف نے وسیع تر مشاورت کا فیصلہ کیا جس میں میڈیا کو بھی بلایا گیا۔ بے باک اور نڈر صحافی جناب مجید نظامی نے نواز شریف کا تذبذب یہ کہہ کر دور کر دیا کہ پاکستان کی سلامتی کیلئے ایٹمی دھماکے ناگزیر ہیں اور اگلے روز ’نوائے وقت‘‘ کی شہ سرخی جمائی ’’میاں صاحب دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دیگی‘‘۔ بالآخر 28 مئی 1998ء کو بھارتی دھمکیوں کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے چاغی کے مقام پر چھ ایٹمی دھماکے کئے گئے جس کے بعد پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔
 آج پاکستان جن نازک حالات سے گزر رہا ہے‘ اس کا اہم تقاضا یہی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اپنے باہمی اختلافات بالائے طاق رکھ کر متحد ہو جائیں اور پاکستان کو مضبوط بنائیں‘ یہ اسی صورت ممکن ہے جب تمام جماعتیں پاکستان کی سلامتی اور بقاء کی خاطر ایک پیج پر نظر آئیں۔ اس وقت معیشت انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے‘ سیاسی افراتفری انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے‘جس کا فائدہ آئی ایم ایف اٹھا رہا ہے۔ وہ اپنی کڑی شرائط منوا کر پاکستان کو اپنے چنگل میں پھنسا چکا ہے۔ اپنی تمام شرائط منوانے کے باوجود وہ سٹاف لیول معاہدے کی طرف نہیں آرہا جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ یا تو وہ پاکستان سے مزید کچھ کرانے کا مطالبہ رکھتا ہے یا پھر کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت ہی وہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے سے گریز کررہا ہے۔ ملک چلانے کیلئے قومی خزانے میں پیسہ نہیں ہے‘ عوام بدترین مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں‘ ملک ٹیکنیکل دیوالیہ ہو چکا ہے۔ ایسے میں کوئی بعید نہیں کہ آئی ایم ایف پاکستان کا سارا قرضہ معاف کرنے کا لالچ دیکر ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کی شرط عائد کردے۔اس لئے ہمیں اسکی تمام تر چالاکیوں اور سازشوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہونگی۔ آئی ایم ایف اور اغیار کی سازشوں کے باوجود یہ امر اطمینان بخش ہے کہ ملکی دفاع اور ایٹمی اثاثوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول ہماری ذمہ دار پاک افواج کے مضبوط ہاتھوں میں ہے۔

ای پیپر دی نیشن