یوم ِ تکبیر اور تھنک فار پاکستان

آغا ناصر 
پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی دشمن تخریب کا ر عناصر کا ہدف اور اپنوں کی سرد مہری کا شکارہے۔بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ دشمن چست اور دوست سست ہیں۔
گو محب وطن پاکستانیوں کی بھی کمی نہیں۔جن کی کاوشوں اور کوششوں سے حوصلہ ملتا ہے‘ ایسے ہی حب الوطنی سے سرشار ہمارے دوست کاشف ہارون اپنی تنظیم۔ ’’ سوچ فار پاکستان‘‘ کے پلیٹ فارم سے اپنی ٹیم کے ہمراہ پاکستان کی فلاح میں پیش پیش ہیں۔اپنے انہی پاکیزہ عزائم کی تکمیل کیلئے اور استحکام پاکستان میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے 28مئی یوم تکبیر منفردانداز سے سیمینار بعنوان’’بعد از شمشیرو سناں‘‘ کے انعقاد کی صورت میں منا رہے ہیں یہ فکر انگیز موضوع ایٹمی دھماکوں سے جغرافیائی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے بعدریاستی ،معاشی ،معاشرتی ،سماجی‘ علمی ،اقداروکردار کی بقاء کی جنگ کے حوالے سے ہے۔ موضوع کے اعتبار سے وہ ایٹمی دھماکوں پر فخر و انبساط اور تدبروتفکر کے ساتھ ارض پاکستان کو ففتھ جنریشن وار،ہابئرڈوارجیسے محاذوں پر قوم کو تیار کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔مثلاً اقبال کے بقول 
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جوہر زماں اپنے عمل کا حساب
حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’اپنا احتساب خود کر لو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب کر دیا جائے‘‘ قوم کو ان اہم ایام کو خود احتسابی اور بہتر مستقبل کے لائحہ عمل کی ترتیب سے منانا چاہیے۔آج جب پاکستان معیشت کے بد ترین بحران کا شکار ہے قوم کو معاشی دھماکہ کرنے کی ضرورت ہے۔آج خودی ہے تیغ فساں لاالہ اللہ محمد رسول اللہ سے قوی حمیت وغیر ت کی بیداری کے دھماکوں سے دشمن کو مات کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی اقداراور کردار کا جائز ہ لیںتوہم خود کو اس شعر کی تفسیر میں دیکھ سکتے ہیں۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
ہماری علمی زبوں حالی پر سوال اٹھتا ہے 
حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے 
  جس قوم کا آغا ز ہی ’’اقرائ‘‘ سے ہوا تھا
 اورحضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں
اْس قوم کی پیشانی پہ لکھی ہے تباہی 
جس قوم کے مکتب کی فضا ٹھیک نہیں ہے
جنوبی افریقہ کی ایک یونیورسٹی کے داخلی گیٹ پر لکھی ایک تحریر:
’’کسی بھی قوم کو تباہ کرنے کے لیے ایٹم بم یا لانگ رینج میزائل کی ضرورت نہیں‘ اگر ملک میں تعلیم کا معیارگرا دیا جائے اور امتحانات میں طلباء کو نقل کی اجازت د ے دی جائے تو قوم ازخود تباہ ہو جائے گی۔کیونکہ تعلیمی معیار کم ہونے سے مریض ڈاکٹر کے ہاتھوں مر جائے گا۔ عمارتیں انجینئر کی نااہلی سے گر جائیں گی معیشت اکانومسٹ کے ہاتھوں تباہ ہو جائیگی۔انسانیت سسکیاں لینے لگے گی۔ مذہب میں سکالرزکی وجہ سے دراڑ آجائے گی انصاف ججز کے ہاتھوں ناپید ہو جائے گا۔‘‘یہی تعلیمی زبوں حالی ہماری بد حالی کی اصل وجہ ہے۔تمام سیاسی ، سماجی ، معاشرتی،معاشی بحرانوں کا مقابلہ تعلیمی پسماندگی ختم کرنے سے ہو گاملکی و قومی سیاست آج زبان ِ حال سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے۔ 
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
 گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
عوام میں علمی ،سماجی، سیاسی شعور کی بلندی کے ساتھ سیاسی بحرانوں کا اصل حل بھی اس شعر میں تلاش کیا جا سکتا ہے
جلال ِ پاد شاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو 
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی 
یعنی سیاست کی دین سے وابستگی میں ہی سیاسی آلودگیوں سے پاکیزگی کا حل ہے۔

ای پیپر دی نیشن