گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
بدلتے سیاسی رویے اور تبدیل ہوتے سیاسی مزاج کچھ اس تیزی سے بدل رہے ہیں کہ بڑے بڑے دانشور، مفکر اور تجزیہ نگاروں کے سر چکرا کر رہ گئے ہیں۔خاص طور پر پاکستان کے اعتراف اور ہمسایہ ممالک میں ہونے والی سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیوں نے پاکستان کے گرد ایک ایسی آگ کی لکیر کھینچ دی ہے کہ جس کی تپش پاکستان کے اندر بھی محسوس کی جا رہی ہے۔پاکستان کے بارڈرز سے ذرا کے ہٹ کے آئیں تو میڈل ایسٹ اور بحرہند میں جو جنگی ماحول اور مزاج بن گیا ہے اس کے اثرات کسی وقت بھی اپنے اردگرد کے ممالک کو جھلسا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ایران کی طرف آتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے شہید ایرانی صدر جناب ابراہیم رئیسی صاحب بمع اپنے وزیر خارجہ حسین عامرعبداللہ کے ہمسایہ ملک آذربائیجان کی سرحد پر دونوں ملکوں کا مشترکہ بننے والے ایک ڈیم کے افتتاح کے لیے بذریعہ ہیلی کاپٹر وہاں پر پہنچے (یاد رہے یہ علاقہ تبریز شہر کے نواح میں ہے)اور افتتاحی تقریب کے بعد جب وہ واپس آنے کے لیے ہیلی کاپٹر میں سوار ہونے لگے تو موسم کافی حد تک اس علاقے میں خراب ہو چکا تھا لیکن صدر کے ساتھ آئے سٹاف نے انہیں بتایا کہ اگر ہم جلدی نکل گئے تو ہم بخیریت تہران پہنچ سکتے ہیں۔یاد رہے کہ اس علاقے میں تقریباً سال بھر برف باری اور سرد موسم رہتا ہے اور اس علاقے کو پاکستانی گلگت بلتستان کے علاقے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔اپنی پرواز کے تقریباً45منٹ بعد ہی ان کے ہیلی کاپٹر قافلے کو حادثہ پیش آ گیا جو کہ ابھی تک ایک سوالیہ نشان ہے اور ایران کی حکومت اس پر اپنے بھر پور وسائل کے ساتھ تفتیش کر رہی ہے۔قرین قیاس ہے کہ اس حادثہ یا سانحہ کے پیچھے اسرائیل اور امریکہ کا چھپا ہوا ہاتھ نظر آ جائے۔اگر ایسا ہوا تو امریکہ اوراسرائیل کی اس پورے مڈل ایسٹ میں نہ تھمانے والی جنگ شروع ہو جائے گی۔دوسری طرف ہمارے دوسرے ہمسایہ ملک چین نے اپنے ایک ہمسایہ ملک افغانستان کو جہاں پر ایک ایسی حکومت ہے جسے ابھی یواین او چارٹر نے تسلیم نہیں کیا اور وہاں پر طالبان کی حکومت قائم ہے۔اور چائنا نے طالبان کی حکومت پراربوں ڈالرز کی انویسمنٹ کر رکھی ہے۔ اسی طرح چین کی پاکستان میں بھی اربوں ڈالرز کی انویسٹمنٹ جاری ہے لیکن گذشتہ چند ماہ سے افغانی طالبان ،پاکستانی طالبان سے مل کر پاکستان کے اندر چین کے جاری منصوبوں پر حملے کر رہے ہیں اور ان پراجیکٹس کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔شروع میں تو شاید اس کو اتفاقیہ سمجھا گیا لیکن چین جس کی اپنے ہمسایہ ممالک میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری چل رہی ہے اسے اس پر تشویش ہوئی اور اس نے اپنی انوسٹی گیشن ٹیمیں اس معاملات کو چیک کرنے پر لگا دیں۔اور ان کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ان تمام حملوں کے پیچھے افغان طالبان کا ہاتھ ہے۔جن کو دوسری طرف ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کا بھرپور تعاون اور سول و ملٹری امداد اور حمایت حاصل ہے۔(یاد رہے کہ بھارت نے چھ سات ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری افغانستان میں شروع کر رکھی ہے)
ان حالات میں اب چین نے اس تحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد گذشتہ روزافغان طالبان کی حکومت کو ایک سخت پیغام بھیجا ہے اور انہیں وارننگ دی ہے کہ اگر چینی منصوبوں کو پاکستان میں ہدف بنایا گیا تو وہ افغانستان میں جاری چین کے منصوبے بند کر دے گا۔اسی طرح چند مہینے پہلے بھارت نے ایران کو مس گائیڈ کرکے ایرانی افواج کو پاکستان کے اندر فضائی حملے پر اکسایا تھا اور ایرانی ایئرفورس نے پاکستان کی سرزمین پر بمباری کی تھی۔جس کے ردعمل کے طور پر پاکستان کی مسلح افواج نے ایران کے اندر گھس کر جوابی حملہ کیا۔ جس کے بعد ایران نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا تو ان تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ دراصل ایرانی فوج کے اندر بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ کا عمل دخل اور اثرو رسوخ شامل ہے۔جس کے بعد شہید ایرانی صدر جناب ابراہیم رئیسی نے ہنگامی طور پرپاکستان کا سرکاری دورہ کیا اور دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان جمنے والی اس برف کو پگھلانے میں اپنا خصوصی کردار ادا کیا۔اور اپنے دورے کے دوران انہوں نے پاکستان کے ساتھ اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے منصوبوں کا اعلان بھی کیا۔قارئین! ایرانی صدر کی شہادت کے بعد ایران کے مذہبی لیڈر جناب آیت اللہ خامنہ ای نے جو پہلا ٹویٹ کیا اس نے پاکستان کے ساتھ اپنے برادرانہ تعلقات اور ہونے والے معاہدوں کے مکمل ہونے پر زور دیا ہے۔ان کا یہ پیغام پاکستان اسٹیبلشمنٹ اور اداروں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے۔قارئین ! چائنانے گذشتہ روز تائیوان جو کہ ایک جزیرہ نما چھوٹا سا ملک ہے مگر پاکستان اور چین نے اسی کبھی تسلیم نہیں کیا اور یہ جزیرہ نما ملک ہے ،چین اس کو اپنے ملک کا حصہ سمجھتا ہے جب کہ امریکہ اور ویسٹرن یورپ چین کی ڈٹ کر مخالفت کرتے ہیں۔اور تائیوان کو اسلحے کی سپلائی اور دیگر جنگی سازوسامان بھی مہیا کرتے ہیں۔اب اس جزیرہ نما ملک کا چین نے محاصرہ کر لیا ہے اور اپنے چوالیس بحری جہاز اس کے اطراف کھڑے کر دیئے ہیں۔ اور میرا یہ کالم پڑھنے کے وقت تک شاید چین تائیوان پر حملہ کر بھی چکا ہو۔دوسری طرف ایرانی صدر کی شہادت کے بعد پچھلے سال اکتوبر سے حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں شدت آ گئی ہے۔ ایرانی صدر کے جنازے کی تقریبات جاری تھیں جس میں ساٹھ سے زائد ممالک کے سربراہان وطن نے شرکت کی جب کہ ڈیڑھ سو سے زائد ممالک نے اپنے اعلیٰ سطحی سرکاری وفود جنازے میں شرکت کے لیے بھیجے تھے۔اور ان میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ بھی شامل تھے۔ اور اسی دوران لبنان کی حزب اللہ نے سو سے زائد میزائل اسرائیل پر داغ دیئے۔
قارئین یہ تمام چیزیں ابزرو کرنے کے بعد ایک عام قاری بھی بخوبی یہ سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان کے چاروں اطراف تیسری اور شاید آخری عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے جس میں مڈل ایسٹ ،یورپ ،سینٹرل ایشیا و ساﺅتھ ایشیا تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ابھی چند گھنٹے پہلے روس نے اپنے بحری بیڑوں کے ذریعے امریکی ریاست میامی کے بالکل نواح میں بحری مورچے قائم کر لیے ہیں۔ان حالات میں پاکستان میں غیریقینی سیاسی صورت حال نے پاکستان کی سلامتی کو خدانخواستہ ایک مشکل سوال بنا دیا ہے۔لہٰذا پاکستان کے عوام کو آگ کی اس تپش سے بچنے کے لیے ہنگامی غوروفکر کی ضرورت ہے۔اور ملک کی تمام سیاسی جماعتیں حکومت اور اپوزیشن و مقتدراعلیٰ قوتیں سرجوڑ کر بیٹھیں کہ آنے والے اس عفریب سے کیسے جان بچائی جا سکتی ہے۔اگر ہم اپنے باہمی اختلافات بھلانے میں کامیاب نہ ہوئے تو یقین کیجیے کہ آئندہ چند ہفتوں میں چھڑنے والی متوقع عالمی جنگ میں پاکستان کی سرزمین کو پلے گراﺅنڈ بنانے کا بھارتی واسرائیلی منصوبہ خدانخواستہ کہیں شرمندہ¿ تعبیر نہ ہو جائے۔ہمیں ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے ملک کے اندر جاری سیاسی چپقلش کو ختم کرنا ہوگا اور اس تیسری عالم گیر جنگ سے خود کو اور پچیس کروڑ عوا م کو بچانے کے لیے تدبر سے کام لینا ہوگااور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے تمام تر سیاسی و اندرونی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیں، یاد رکھیے وہ قومیں جو وقت پر فیصلے نہیں کرتیں ان پر آفتیں اور عذاب بے وقت بھی نازل ہو جایا کرتے ہیں۔پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور خاص طور پر تحریک انصاف اور کپتان کے ساتھیوں کو اس موقع پر مل بیٹھ کر یہ سوچنا ہوگا کہ چاروں اطراف سے آگ میں گھِرے پاکستان کو اس عالمی خونی جنگ سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟وگرنہ تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں!